ہفتہ‬‮ ، 21 جون‬‮ 2025 

ہم سب

datetime 30  جون‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

زیروپوائنٹ (جاوید چودھری)میں استاد کو بھول گیاہوں‘ استاد کی پڑھائی ہوئی باتیں‘ ان کا یاد کروایا ہوا سبق اور کلاس میں بیٹھنے والے ساتھی بھی بھول گیاہوں لیکن مجھے استاد کی ایک بات ابھی تک یاد ہے اور یہ یاد شائد آخری سانس تک یاد رہے گی۔ استاد نے ایک بار کہا تھا ’’استادوں کی اچھائی‘ برائی‘ لائقی‘ نالائقی اور عزت اوربدنامی کا فیصلہ شاگرد کرتے ہیں‘‘ وہ تیسری جماعت کا دیہاتی استاد تھا‘ وہ دھوتی باندھ کر سکول آتا تھا‘

آک کی چھڑیاں منگواتا تھااور پوری کلاس کی کمر پر بلا تخصیص برساتا تھا‘ اس کا ایک مکالمہ پورے سکول میں مشہور تھا‘ وہ یہ مکالمہ ہر پانچ منٹ بعد دہراتا تھا ’’موراں وچ ماراں دا (کمر پر ڈنڈا ماروں گا)۔ استاد کے کہنے کا مطلب تھا اگر شاگرد اچھے نکل آئیں تو یہ استاد کی عزت اور شہرت کا باعث بن جاتے ہیں اور لوگ کہتے ہیں ان کا استاد اچھا ہے اس لئے یہ بھی اچھے نکل آئے یا اگر یہ اتنا اچھا ہے تو اس کے استاد کتنے اچھے ہوں گے اور اگر شاگرد برے نکل آئیں تو لوگ انہیں دیکھ دیکھ کر ان کے استادوں کو بھی برا بھلا کہنا شروع کردیتے ہیں۔ استاد کا کہنا تھا ’’میں اچھا ہوں‘ لائق ہوں‘ محنتی ہوں یا ایماندار ہوں اس کا فیصلہ آپ لوگوں کا مستقبل کرے گا‘ آپ اچھے نکل آئے تو لوگ مجھے دعائیں دیں گے اور اگرآپ لوگ برے نکل آئے تو لوگ مجھے بھی برا کہیں گے‘‘ استاد کی یہ بات ملیریے کے مریض کیلئے کونین کی گولی ثابت ہوئی‘ یہ آج تک میرے ذہن میں نقش ہے‘ میں جب بھی غیر مسلموں سے ملتا ہوں‘ میں ملک سے باہر جاتا ہوں یاکسی اوپن سوسائٹی میں اوپن لوگوں سے ملتا ہوں تومیں ابنارملٹی کی حد تک اچھا ہونے کی اداکاری شروع کر دیتا ہوں‘ میں حد سے زیادہ عاجز ہو جاتا ہوں‘ غیر معمولی حد تک اپنے اوپر انکساری طاری کر لیتا ہوں‘

ایمانداری کو ایک ایک پینی تک لے آتا ہوں‘ کسی کو گھور کر نہیں دیکھتا اور تمام قانون اور قاعدے کو ’’فالو‘‘ کرتا ہوں‘ کیوں؟ صرف یہ سوچ کرکہ میں اگر اس غیر مسلم معاشرے میں تہذیب اور شائستگی کے خلاف کوئی حرکت کروں گا اور لوگوں کو جب یہ معلوم ہو گا میں مسلمان اور پاکستانی ہوں تو لوگوں کے ذہنوں میں اسلام اور پاکستان کی غلط تصویر بنے گی اور اس سے ہمارے ان استادوں کا امیج خراب ہوگا

جنہوں نے اسلام اور پاکستان کی بنیاد رکھی تھی‘میں محسوس کرتا ہوں میں نے اگر کسی گورے کے ساتھ غلط سلوک کیا‘ میں اس سے غیر شائستگی‘ بے ایمانی اور بدتہذیبی کے ساتھ پیش آیا‘ میں نے شراب پی‘ جوا کھیلا‘ میں کسی کلب میں چلا گیا یا میں کسی بداخلاقی میں مبتلا ہو گیا تو اس سے میرے وہ استاد بدنام ہوں گے جن پر اس وقت پوری دنیا نظریں گاڑھ کر بیٹھی ہے چنانچہ میں ہمیشہ غیر مسلموں کے درمیان اچھا مسلمان بننے کی کوشش کرتا ہوں۔

میں یہ کوشش اپنے ملک میں بھی کرتا ہوں‘ میں اپنے ارد گرد صفائی رکھنے کی کوشش کرتا ہوں‘ منہ پر ٹشو رکھ کر چھینک مارتا ہوں‘ ناک صاف کرنے کیلئے باتھ روم میں جاتا ہوں‘ استعمال کے بعد اپنا ٹوائلٹ صاف کرتا ہوں‘ گرمی ہو یا سردی ہو روز نہاتا ہوں‘ خوشبو لگاتا ہوں‘ دن میں دو بار کپڑے تبدیل کرتا ہوں‘ دو دو بار جرابیں بدلتا ہوں‘ دن میں تین بار دانت صاف کرتا ہوں‘ جوتے پالش کر کے پہنتا ہوں‘ پندرہ دن بعد بال کٹواتا ہوں

اور گھر سے وضو کر کے مسجد جاتا ہوں تا کہ میرے وضو کے چھینٹوں سے دوسروں کے کپڑے اور مسجد کا فرش خراب نہ ہو‘ کیوں؟ کیونکہ ہمارے رسولﷺ نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا تھا لہٰذا میں صفائی کو اپنی ذمہ داری‘ اپنا فرض سمجھتا ہوں اور میں یہ سمجھتا ہوں اگرمیں گنداہوں گا‘ میں لوگوں کے سامنے ناک صاف کروں گا‘ منہ کھول کر جمائی لوں گا‘ دوسروں کے منہ پر چھینک ماروں گا

یااگر مجھ سے بو آئے گی تو اس سے اسلام کے استاد یعنی نبی اکرمﷺ کے امیج کو زک پہنچے گی اور صاف ستھرا‘ مہذب اور شائستہ ہوں گا تو غیر مسلم کہیں گے اگر امتی اتنا اچھا ہے‘ یہ اتنا صاف ستھرا ہے تو ان کا رسولﷺ کتنا شاندار ہوگا۔ میں ہمیشہ اپنے دوستوں سے بھی ایمانداری‘ درد دل‘ صبر‘ محنت‘ برداشت‘ حلیمی‘ درگزر‘ شائستگی اور خوش دلی کی درخواست کرتا ہوں‘ یہ جب اس کی وجہ پوچھتے ہیں تو میں ان سے عرض کرتا ہوں

اس سے غیر مسلم ہمارے رسولﷺ کی تعریف کرنے پر مجبور ہو جائیں گے‘ یہ لوگ یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے اگریہ لوگ اتنے اچھے ہیں تو ان کے رسولﷺ ‘ان کے استاد کتنے اچھے ہوں گے اور یوں اسلام کی خوشبو پوری دنیا میں پھیلنے لگے گی ۔میں اس زاویے سے جب خود کو اورپھر اپنے معاشرے کو دیکھتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے ہم میں سے اکثریت اچھی شاگرد ثابت نہیں ہو رہی‘

ہمارے رسولﷺ نے آہستہ بولنے‘ نظریں جھکا کر چلنے اور چال میں میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دیا تھا‘ آپ ؐ نے بازار میں کھڑے ہو کر کھانے‘ گالی دینے‘ لڑائی جھگڑا کرنے‘ دوسروں کی مذہبی روایات کا مذاق اڑانے‘ خواتین کو گھور کر دیکھنے‘ دوسروں کے بارے میں بغض اور حسد پالنے‘ دوسروں کے خلاف سازش کرنے اور دوسروں کو دھوکا دینے سے بھی منع فرمایا تھا لیکن ہم سب روزانہ رسولﷺ کے ان احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہیں

‘ ہمارے ملک میں دنیا میں سب سے زیادہ گالیاں دی جاتی ہیں‘ پنجابی زبان دنیا کی ایسی پانچویں زبان ہے جس میں کروڑوں کی تعداد میں گالیاں موجود ہیں اور اگرانہیں جمع کیا جائے تو یہ آکسفورڈ ڈکشنری سے بڑی کتاب بن جائے‘ ہم میں سے ہر شخص حلق پھاڑ کر بولتا ہے‘ دنیا میں سب سے زیادہ ہارن اس ملک میں بجائے جاتے ہیں‘ دنیا میں سب سے زیادہ جھگڑے اس ملک میں ہوتے ہیں‘ ہمارے ننانوے فیصد گھرانوں میں لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں‘

یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس میں ہمسایہ ہمسائے کا دشمن ہے اور دونوں مسلمان بھی ہیں‘ جس میں مسلمان‘ مسلمان سے مسجد کا قبضہ لینے کیلئے رائفلیں اور ڈنڈے لے کر مسجد پہنچ جاتا ہے‘ جس میں ہر شخص بھاگتا‘ دوڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے ‘ جس میں خواتین پر سرے عام فقرے کسے جاتے ہیں اور جس میں ہر شخص دل میں دوسرے شخص کے بارے میں نفرت کا تنور جلا کر پھر رہا ہے‘

ہمارے رسولﷺ نے شراب‘ بدکاری‘ سود‘ خواتین اور بچوں پر تشدد سے منع فرمایا تھا لیکن پاکستان دنیا کے ان پانچ ممالک میں شمار ہوتا ہے جن میں بچوں پر تشدد اور خواتین کو اذیت دینے کے ہزاروں لاکھوں واقعات رپورٹ ہوتے ہیں‘ جس کی ساری معیشت سود پر استوار ہے‘ جس میں بدکاری پیشے کی شکل اختیار کر چکی ہے اور جس میں پابندی کے باوجود حکومتی اور ریاستی اداروں میں عام شراب پی جاتی ہے‘

ہمارے رسولﷺ نے کم تولنے‘ کم ماپنے‘ ملاوٹ کرنے‘ بھیک مانگنے‘ جھوٹ بولنے اور وعدہ خلافی سے منع فرمایا تھا لیکن ہمارے اسلامی ملک میں کم ماپنا اور کم تولنا تجارت کا حصہ بن چکا ہے‘ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شمار ہوتا ہے جن میں دوائیں‘ دودھ اور خوراک تک میں ملاوٹ ہوتی ہے‘ حد تو یہ ہے اس ملک کے علمائے کرام بھی یورپ اور امریکا سے دوائیں منگوا کر کھاتے ہیں

کیونکہ انہیں اپنے مسلمان بھائیوں کی دواؤں پر یقین نہیں ہوتا‘ ہم یہودی‘ عیسائی اور ہندو کی دکان سے چیز خریدتے ہیں تو اس کی کوالٹی اور مقدار بھی پوری ہوتی ہے‘ اس کی قیمت بھی کم ہوتی اور اس کی ’’آفٹر سیل گارنٹی‘‘ بھی دی جاتی ہے جبکہ ہم جب مسلمان بھائیوں سے چیز خریدتے ہیں تو اس میں ملاوٹ بھی ہوتی ہے‘ اس کی مقدار اور وزن بھی کم ہوتا ہے اور ایک بار قیمت ادا کرنے کے بعد یہ چیز واپس بھی نہیں ہو سکتی‘

ہم ایک بھکاری قوم بھی بن چکے ہیں‘ ہمارے صدر اور وزیراعظم چیف بھکاری ہو چکے ہیں جبکہ ہم سب چھوٹے چھوٹے بھکاری ہیں‘ جھوٹ اور وعدہ خلافی ہماری پوری قوم کی عادت بن چکی ہے‘ اکبری منڈی سے لے کر ایوان صدر تک ہم وعدہ خلافی بھی کرتے ہیں‘ جھوٹ بھی بولتے ہیں اور دوسروں کو دھوکا بھی دیتے ہیں۔میں بات کو زیادہ پھیلانا نہیں چاہتا‘ آپ احادیث یا سیرت کی کوئی کتاب اٹھائیں‘

نبی اکرمﷺ کے اقوال پڑھیں اور اس کے بعد اپنے ضمیر سے سوال کریں کیا ہم نبی اکرمﷺ کے اقوال پر عمل کر رہے ہیں‘ کیا ہم ان کے احکامات مان رہے ہیں‘ کیا ہماری ذات میں کنٹرا ڈکشن نہیں‘ کیا ہم دنیا کی بدترین قوم اور بدترین معاشرہ ثابت نہیں ہو رہے‘ کیا ہم انسانیت کے شرف سے کئی منزل نیچے زندگی نہیں گزار رہے‘ اگر اس کا جواب ہاں ہے تو آپ اپنے آپ سے یہ دوسرا سوال بھی پوچھئے‘

ہمارے اس طرز عمل سے غیر مسلم ہمارے نبی اکرمﷺ کے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے؟ کیا ہماری حرکتوں سے ہمارے رسولﷺ کے امیج کو زک نہیں پہنچ رہی‘ کیا لوگ یہ نہیں سوچتے ہوں گے اگر مسلمان ایسے ہیں تو اسلام کیسا ہو گا‘ کیا غیر مسلم یہ نہیں کہتے ہوں گے اگر اسلام ان لوگوں کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکا تو ہم ٹام‘ ڈک اور ہنری اسے کیوں مانیں۔ آپ ایک لمحے کیلئے سوچئے

کیا ہم اپنے نبیﷺ کے احکامات کی خلاف ورزی کر کے توہین اور گستاخی کے مرتکب نہیں ہو رہے! کیا ہم پاکستانی مسلمان گستاخ نہیں ہیں کیونکہ لوگ اب ہماری وجہ سے ہمارے رسولﷺ کی طرف انگلیاں اٹھا رہے ہیں اور ہم اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کی بجائے ان انگلیوں سے جنگ کر رہے ہیں۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



کرپٹوکرنسی


وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…

گردش اور دھبے

وہ گائوں میں وصولی کیلئے آیا تھا‘ اس کی کمپنی…

حقیقتیں

پرورش ماں نے آٹھ بچے پال پوس کر جوان کئے لیکن…

نوے فیصد

’’تھینک یو گاڈ‘‘ سرگوشی آواز میں تبدیل ہو گئی…

گوٹ مِلک

’’تم مزید چارسو روپے ڈال کر پوری بکری خرید سکتے…