ہفتہ‬‮ ، 21 جون‬‮ 2025 

بس اتنی سی بات

datetime 30  جون‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

زیروپوائنٹ (جاوید چودھری)میں نے کھانے کے دوران لمبی سانس لینے کی غلطی کر دی‘ خوراک کا ایک ذرہ اڑا اور میری سانس کی نالی میں پھنس گیا‘ مجھے کھانسی کا دورہ پڑا‘ میں میز سے اٹھا اور زمین پر اوندھے منہ لیٹ کر کھانسنے لگا‘ میرے ساتھیوں نے مجھے پانی کا گلاس پکڑایا‘ میں ایک سانس میں پورا گلاس پی گیا لیکن کھانسی نہیں رکی‘ میں کھانس کھانس کر بے حال ہوگیا لیکن وہ ذرہ سانس کی نالی میں پھنسا رہا‘

میں ناک سے تیز تیز سانس لینے کی کوشش کرتا تھا‘ کھانستا تھا اور زمین پر لیٹ کر بے چینی سے کروٹیں لیتا تھا‘ اٹھ کر بیٹھتا تھا‘ کھڑا ہوتا تھا‘ رکوع کے عالم میں دہرا ہو کر کھانستا تھا اور پھر لیٹ جاتا تھا لیکن کھانسی نہیں رک رہی تھی‘وہ ایک منٹ میری زندگی کا مشکل ترین منٹ تھا‘ مجھے یوں محسوس ہوا میری سانس بند ہو جائے گی اور میں چند سیکنڈ میں زندگی کی حدیں پار کر جاؤں گا‘ میرے ساتھیوں نے مجھے ہسپتال لے جانے کا فیصلہ کیا لیکن میرے اندر کھڑے ہونے کی ہمت بھی نہیں تھی‘ میرے ساتھیوں نے میری بغلوں میں ہاتھ ڈال کر مجھے اٹھایا اور مجھے قریباً گھسیٹتے ہوئے گاڑی تک لے آئے‘ یہ شائد کھلی فضا کا نتیجہ تھا یا کھانسی کے آخری اور بڑے حملے کی مہربانی یا پھر اللہ تعالیٰ کو میری بے بسی پر رحم آ گیا‘ میں گاڑی کے قریب دہرا ہوا‘ کھانسی کا ایک خوفناک ریلاشروع ہوا اور میری سانس کی نالی کلیئر ہو گئی‘ میں لمبے لمبے سانس لینے لگا‘ میرے دوست نے گاڑی سے پانی کی بوتل نکالی اور میں ڈیڑھ لیٹر کی پوری بوتل پی گیا‘ میرا سانس بحال ہو چکا تھا لیکن ایک منٹ اور تیس سیکنڈ کی اس اذیت کی خراشیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے میرے تحت الشعور کی دیواروں پر درج ہو گئیں ۔ میری سانس کلیئر ہو گئی لیکن میری آواز بحال نہیں ہوئی‘ مجھے بولنے کیلئے پورا زور لگانا پڑتا تھا مگر میرے حلق سے آواز نہیں نکل رہی تھی‘ میں اپنے دوستوں کو بتانا چاہتا تھا میں ٹھیک ہوگیا ہوں

لیکن میری غوں غوں ان کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی‘ میں نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں سمجھایا‘ اٹھا اور اندر واپس آ گیا‘ ہم سب دوبارہ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ گئے اور میں بولنے کی کوشش کرنے لگا لیکن میرا حلق آوازوں کو لفظوں کی شکل دینے میں کامیاب نہیں ہو رہاتھا‘ میں انسان سے ایسا بن مانس بن چکا تھا جو اپنے ماحول کو سمجھ سکتا ہے‘ جس کے شعور میں خیال‘ تصور اور احساس کروٹ لیتا تھا

لیکن وہ اس احساس‘ اس تصور اور اس خیال کو لفظوں کا جامہ نہیں پہنا پاتا ‘ میں بے بسی کے ایک نئے فیز میں داخل ہو گیا‘ اس رات میرا پروگرام بھی تھا اور ٹیلی ویژن آواز اور تصویر کا کھیل ہے اور آواز میرے گلے میں پھنس چکی تھی‘ میں نے اس ڈائنگ ٹیبل پر بیٹھے بیٹھے تصور کیا میری آواز میرا ساتھ چھوڑ گئی ہے اور میں اب زندگی میں کبھی نہیں بول سکوں گا ۔ مجھے محسوس ہوا مجھے ٹیلی ویژن کا کام چھوڑنا پڑے گا

کیونکہ سکرین کی دنیا میں غوں غوں کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی‘ میرا دھیان فوراً جدید میڈیکل سائنس کی طرف گیا‘ میں نے سوچا میڈیکل سائنس بہت ترقی کر چکی ہے یہ میری آواز کو ’’ری وائیو‘‘ کر دے گی لیکن اس میں کتنا وقت لگے گا؟ ایک سال‘ دو سال یا پھر تین سال اور اس دوران لوگ مجھے بھول جائیں گے اور اگر اس علاج کے باوجود میری آواز اصل شکل میں واپس نہ آئی اور مجھے غلام احمد بلور کی طرح بولنا پڑا تو کیا ہوگا؟

میں اس صورت میں بھی ٹیلی ویژن پر واپس نہیں آ سکوں گا چنانچہ میری جرنلزم کا ایک حصہ ختم ہو جائے گا لیکن ساتھ ہی میں نے سوچا آواز کی قربانی بہرحال زندگی کی قربانی سے بڑی نہیں‘ میں کم از کم زندہ تو رہ گیا ہوں‘ وہ ذرہ اگر مزید ایک آدھ منٹ میری سانس کی نالی میں رہ جاتا تو میں معذور ہو جاتا یا پھر دنیا سے رخصت ہو جاتا اور یہ آواز سے بڑا نقصان ہوتا۔ میں ابھی یہ سوچ رہا تھا

کہ اچانک میرے ذہن میں شب برات کی ’’شرلی‘‘ کی طرح یہ خیال کوندا‘ کیا یہ زندگی ہے؟ ہم اس زندگی پر اتراتے ہیں؟بس اتنی سی بات ہے۔ یہ ساری زندگی اور اس کا سارا بوجھ اور اس بوجھ میں بندھی ہماری ساری حسرتیں‘ خواہشیں‘ کوششیں اور کامیابیاں یہ سب بس ایک چھوٹے سے ذرے کی مار ہیں‘ یہ ذرہ اگر زبان اور حلق سے جدا ہو کر سانس کی نالی میں جا گرے تو ہمارے سارے تکبر‘ ہمارے سارے فخر‘ ہماری ساری کامیابیوں‘

چالاکیوں‘ نفرتوں اور منافقتوں کو ہوا میں تحلیل ہونے کیلئے ایک منٹ تیس سیکنڈ چاہئیں‘ بس اتنی سی بات ہے!۔مجھے چند دن پہلے میرے ایک دوست نے زرعی ترقیاتی بینک کے ایک ملازم کی افسوس ناک موت کا واقعہ سنایا‘ یہ ایک کامیاب‘ خوشحال اور مسرور شخص تھا‘ یہ اپنی زندگی کے دائرے میں خوش تھا‘ دفتر جاتا تھا‘ واپس آتا تھا اور اپنی فیملی کے ساتھ وقت گزارتا تھا‘ یہ ایک دن دفتر گیا‘ کام کرتے کرتے اسے قے آئی‘

یہ حلق کو سنبھالتے ہوا واش روم گیا‘ اس نے واش روم کا دروازہ بند کیا‘ قے کیلئے کموڈ پر جھکا اور عین اس وقت اسے برین ہمبرج ہو گیا‘ یہ کموڈ کے اوپر گر گیا‘ اس کا جسم مفلوج ہو گیا اور آواز بند ہو گئی‘ یہ باہر سے مدد طلب کرنا چاہتا تھا لیکن یہ کسی کو آواز دے سکتا تھا اور نہ ہی دروازے پر دستک۔ باہر لوگ آتے رہے‘ جاتے رہے لیکن یہ واش روم میں پڑا رہا یہاں تک کہ دفتر میں چھٹی ہو گئی اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔

اس کی بیوی اور بچے اس کا انتظار کرتے رہے‘ یہ رات گئے تک گھر نہ پہنچا تو اس کی بیوی نے اسے تلاش کرنا شروع کیا‘ اس نے اس کے تمام دوستوں سے پوچھا‘ تھانے اور ہسپتالوں سے معلوم کیا لیکن جب کسی جگہ سے خبر نہ ملی تو یہ اس کے دفتر پہنچ گئی‘ اس نے دفتر کھلوایا‘ اس کا سامان اس کے دفتر میں موجود تھا‘ اس سے بیوی کو اندازہ ہوا یہ دفتر سے باہر نہیں نکلا‘ اس کے بعد اس نے دفتر کے مختلف حصوں میں جھانکنا شروع کیا‘

یہ آخر میں واش رومز میں گئی وہاں اسے ایک واش روم کا دروازہ بند ملا‘ اس نے چوکیدار کی مدد سے واش روم کا دروازہ توڑا‘ یہ اندر گئی تو اس کا خاوند مفلوج حالت میں کموڈ پر پڑا تھا‘ یہ اسے فوراً ہسپتال لے گئی لیکن اس وقت تک دیر ہو چکی تھی‘ اس کے دماغ میں خون جم چکا تھا‘ ہسپتال میں سرجن موجود نہیں تھے‘ ایک دن بعد عید کی چھٹیاں شروع ہو گئیں اور ہسپتال کا عملہ چھٹیوں پر چلا گیا اور یوں یہ شخص ہسپتال کے بیڈ پر اللہ کو پیارا ہو گیا۔

اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے‘ یقیناً اس میں بھی مصلحت تھی کیونکہ اگریہ بچ جاتا تو اس کی اور اس کے خاندان کی زندگی مزید عذاب ہو جاتی کیونکہ اس ملک میں جس میں صحت مند زندگی گزارنا مشکل ہے اس میں مفلوج حالت میں زندگی کتنا بڑا امتحان ہوتی ہے اس کا اندازا صرف وہی کر سکتے ہیں جو زندگی کے اس مشکل مرحلے سے گزر رہے ہیں۔
یہ کیا ہے؟ یہ بھی بس اتنی سی بات ہے اور ہم سب اتنی سی بات کی مار ہیں‘

اکیس گرام کا ایک سانس ہمارے پھیپھڑوں میں گیا اور واپسی کا راستہ بھول گیا اور ہم فارغ‘ ہماری ساری خواہشیں‘ ہماری ساری حسرتیں‘ ہماری ساری کوششیں‘ ہماری ساری کامیابیاں اور ہماری ساری اچیومنٹس بھی فارغ۔ ہمارا اختیار بھی غائب‘ ہمارا اقتدار بھی خارج اور ہماری سیاست بھی ختم۔ آپ تصور کیجئے چار جنوری 2011ء کو سہ پہر چار بج کر 17منٹ تک سلیمان تاثیر گورنر تھے‘ یہ پورے پروٹوکول کے ساتھ زندگی کی گزار رہے تھے‘

ان کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے گارڈز‘ پروٹوکول اور سیکورٹی تھی لیکن پھر ان ہی کے حفاظتی عملے کے ایک رکن کے ذہن میں ایک خیال آیا ‘ اس نے انہیں گولی مار دی اوریہ ایک منٹ میں گورنر سے لاش بن گئے اور آج 53دن بعد انہیں ان کی پارٹی ‘ ان کے دوست‘ عزیز ‘رشتے دار‘ کولیگز‘ کاروباری پارٹنر اور ان کی کمپنیوں کے ملازمین سب بھول چکے ہیں۔ آج پاکستان پیپلزپارٹی کے راہنما ان کے لواحقین کی ٹیلی فون کال تک نہیں سنتے

اور ان کے بچوں کو گورنر ہاؤس جانے کیلئے باقاعدہ اجازت لینا پڑتی ہے اور یہ ہے وہ زندگی ہم جس کا بوجھ اٹھا اٹھا کر پھر رہے ہیں اور اس بوجھ پر فخر بھی کرتے ہیں۔ کاش آصف علی زرداری‘ میاں نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی بھی زندگی کی اس حقیقت کا ادراک کر سکیں۔ کاش یہ جان سکیں ہم سب بلبلے پر بیٹھے اس مچھر کی طرح ہیں جو بلبلے کی کمان کو زمین بیٹھتا ہے اور اس گمان میں مبتلا ہو جاتا ہے یہ زمین ہمیشہ اس کی ٹانگوں کے نیچے رہے گی

اور یہ تا قیامت اس پراسی طرح سواری کرتا رہے گا اور خوش گمانی کے اس سمندر میں ہلکورے لیتے ہوئے مچھر یہ تک فراموش کر بیٹھتے ہیں بلبلے تو ہواؤں کی سوئیاں تک نہیں سہار سکتے‘ ان کے پھٹنے کی تو آواز تک نہیں آتی اور ہم بھی بلبلوں کے ان مچھروں کی طرح ہیں جو اپنے عہدوں‘ اپنی کرسیوں اور اپنی کامیابیوں کو لوح مقرر سمجھ بیٹھتے ہیں لیکن جب خوراک کا ایک حقیر ذرہ ہمارے حلق میں پھنس جاتا ہے تو ہمیں اس وقت اندازہ ہوتا ہے بس اتنی سی بات تھی لیکن اس اتنی سی بات کا ادراک بھی اللہ تعالیٰ کتنے لوگوں کو نصیب کرتا ہے؟؟۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



کرپٹوکرنسی


وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…

گردش اور دھبے

وہ گائوں میں وصولی کیلئے آیا تھا‘ اس کی کمپنی…

حقیقتیں

پرورش ماں نے آٹھ بچے پال پوس کر جوان کئے لیکن…

نوے فیصد

’’تھینک یو گاڈ‘‘ سرگوشی آواز میں تبدیل ہو گئی…

گوٹ مِلک

’’تم مزید چارسو روپے ڈال کر پوری بکری خرید سکتے…