زیرو پوائنٹ (جاوید چودھری)میں اکثر سوچتا ہوں ہمارے با اختیار طبقے کی زندگی میں اطمینان کیوں نہیں؟ ان کا انجام اچھا کیوں نہیں ہوتا؟ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے طلسماتی لیڈر تھے‘ انہوں نے گوادر سے خیبر تک پورے ملک میں نیا جذبہ‘ نیا ولولہ پیدا کر دیا‘ ان کی تقریریں عوام کے تن من میں آگ لگا دیتی تھیں اور وہ جب پورے جوش سے کہتے تھے ’’ لڑو گے‘‘ لاکھوں لوگ ان کی آواز میں آواز ملا کر جواب دیتے تھے
’’ لڑیں گے‘‘ وہ کہتے تھے ’’ مرو گے‘‘ لاکھوں لوگ آواز ملا کر جواب دیتے تھے ’’ مریں گے‘‘ لیکن پھر اس بھٹو کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ اقتدار سے بے دخل ہوئے‘ انہوں نے جیلیں کاٹیں‘ دس بائی بارہ کی کال کوٹھڑی دیکھی اور آخر میں پھانسی کے پھندے پر جھول گئے‘ کیوں؟ ان کا قصور کیا تھا؟ انہیں کس چیز کی سزا ملی؟ اور قدرت نے انہیں اس انجام سے کیوں دو چار کیا؟ جنرل ضیاء الحق نے پاکستان کی تاریخ کا شاندار ترین اقتدار پایا‘ امریکا اور یورپ ان کا مشقتی بن گیا‘ آئین‘ قانون اور سیاست کو انہوں نے موم کی ناک بنا دیا اور یہ دس سال تک اس کو اپنی مرضی کے مطابق دائیں اور بائیں موڑتے رہے اور یہ مڑتی رہی لیکن پھر ان کے ساتھ کیا ہوا؟ ان کی نعش چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر جہاز کے ملبے کے ساتھ کباڑیوں کی دکانوں پر بک گئی اور ان کی چند نشانیوں کو جمع کر کے دفن کر دیا گیا‘ میں اکثر سوچتا تھا جنرل ضیاء الحق کو کس جرم‘ کس گناہ اور کس غلطی کی سزا ملی‘ قدرت نے انہیں اس انجام سے دوچار کیوں کیا؟ بے نظیر بھٹو پاکستان کی شاندار لیڈر‘ ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی‘ ملک کی دو بار کی وزیراعظم اور پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی سربراہ تھیں‘ یہ عالمی سطح پر بھی مانی‘ جانی اور قابل عزت سمجھی جاتی تھیں لیکن ان کے ساتھ کیا ہوا؟
دوبار اقتدار سے فارغ ہوئیں‘ سڑکوں پر دھکے کھائے‘ ان کے خلاف مقدمے بنے‘ عدالتوں میں پیش ہوئیں‘ زندگی کے بارہ قیمتی سال خود ساختہ جلاوطنی میں گزار دیئے‘ بینکوں میں پیسے اور دنیا جہاں میں اربوں روپے کی جائیداد تھی لیکن انہیں اس جائیداد کو استعمال کرنے اور روپے پیسے کو خرچ کرنے کی توفیق نہیں ہوئی‘ وہ بارہ سال لوگوں کی مہربانیوں پر زندگی گزارتی رہیں اور آخر میں ان کے ساتھ کیا ہوا؟
وہ خودکش حملے میں شہید ہو گئیں اور ان کا جسد خاکی تیسرے درجے کے ہسپتال کے پتھریلے چبوترے پر پڑا رہا‘ اس وقت ان کے سر پر دوپٹہ تک نہیں تھا اور جب ان کی نعش اسلام آباد سے گڑھی خدا بخش شفٹ کی جا رہی تھی تو ان کا تابوت سی ون تھرٹی کے فرش پر نیچے پڑا تھا اور ان کے وہ ساتھی جنہیں کبھی ان کے برابر بیٹھنے کا اعزاز حاصل نہیں ہوا تھا وہ جہاز کی نشستوں پر بیٹھے تھے‘ میں اکثر سوچتا تھا محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟
یہ اس انجام تک کیوں پہنچیں؟۔میں اکثر میاں نواز شریف کے بارے میں بھی سوچتا تھا‘ میاں صاحب نے پوری زندگی کامیابیاں دیکھیں‘ والد پنجاب کے سب سے بڑے صنعت کار تھے‘ یہ کاروبار سے سیاست میں آئے اور دو برسوں میں پنجاب کے وزیر خزانہ بن گئے‘ چار پانچ سال کی سیاست کے بعد پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ ہو گئے‘ یہ دیکھتے ہی دیکھتے مسلم لیگ جیسی جماعت کے قائد بھی بن گئے اور یہ ملک کے دوبار وزیراعظم بھی رہے‘
آپ ان کی زندگی کی اٹھان ملاحظہ کیجئے اس میں کامیابیاں ہی کامیابیاں ہیں‘ میاں صاحب نے زندگی میں کبھی میلے کپڑے اور بغیر پالش کے جوتے نہیں پہنے تھے لیکن پھر کیا ہوا‘ ان کی زندگی میں بارہ اکتوبر آیا‘ یہ وزیراعظم ہاؤس سے مری لے جائے گئے اور قید تنہائی میں ڈال دیئے گئے اور اس کے بعد انہوں نے قید وبند کی خوفناک صعوبتیں دیکھیں‘ یہ اٹک قلعے میں بھی بند رہے‘ یہ اڈیالہ جیل بھی گئے‘
انہوں نے لاہور اور کراچی کی جیلیں بھی دیکھیں اور یہ بعد ازاں پورے خاندان کے ساتھ جلاوطن بھی ہوئے‘ انہیں اپنے بیمار صاحبزادے کے پاسپورٹ کیلئے ان لوگوں کی مدد لینا پڑی جن سے یہ کبھی ہاتھ تک ملانا پسند نہیں کر تے تھے اور پھر انہیں وطن واپسی کیلئے طویل جدوجہد کرنا پڑی‘ یہ بیرونی طاقتوں کی مدد پر بھی مجبور ہوئے اور انہیں ملک کے اندر موجود طاقتوں کے ساتھ بھی کمپرومائز کرنا پڑا‘ میں اکثر سوچتا تھا
میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ ان کا جرم‘ ان کا گناہ کیا تھا‘ میں اکثر الطاف حسین کے بارے میں بھی سوچتا ہوں‘ الطاف حسین ایم کیو ایم جیسی پارٹی کے سربراہ ہیں‘ یہ ایک ایسی پارٹی ہے جس کی مدد کے بغیر کوئی بڑی جماعت وفاق میں حکومت بنا سکتی ہے اور نہ ہی سندھ میں اقتدار میں رہ سکتی ہے‘ یہ ٹیلی فونک خطاب کے دوران لوگوں کو کہتے ہیں ’’ ون‘ ٹو‘ تھری خاموش‘‘ اور لاکھوں لوگ دو سیکنڈ میں دم سادھ لیتے ہیں
لیکن ایسے مضبوط اور طاقتور الطاف حسین اٹھارہ سال سے برطانیہ میں پناہ گزین ہیں‘ یہ اس ملک‘ اس شہر میں واپس نہیں آ رہے جس میں ان کے لاکھوں جاں نثار موجود ہیں‘ کیوں؟ میں اکثر سوچتا تھا آخر ان سے ایسی کون سی غلطی سرزد ہوئی‘ انہوں نے ایسا کون سا جرم کیا جس کی انہیں جلاوطنی کی شکل میں سزا مل رہی ہے‘ میں اکثر سوچتا تھا شوکت عزیز اور پرویز مشرف کو کس جرم‘ کس گناہ اور کس غلطی کی سزا ملی‘
شوکت عزیز کو اقتدار پلیٹ میں سجا سجایا ملا تھا اور یہ اس اقتدار کو جیم کے ساتھ لگا کر کھاتے رہے تھے لیکن آج یہ شوکت عزیز اس ملک میں قدم نہیں رکھ سکتے جس پر انہوں نے کبھی حکومت کی تھی‘ کیوں؟ صدر پرویز مشرف اس ملک کے طاقتور ترین حکمران تھے‘ انہیں ملک کے اندر اور بیرون ملک دونوں طرف سے کھلی سپورٹ ملی تھی‘ انہوں نے دس سال تک جو چاہا وہ کیا‘ یہ دنیا جہاں کے ٹیلی ویژن نیٹ ورکس کی ہیڈ لائنز میں رہے‘
یہ عالمی میگزینوں کے کور پر چھپتے رہے اور دنیا جہاں کے سربراہ ان کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویریں اترواتے تھے لیکن پھر کیا ہوا‘ یہ آج لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں‘ یہ پاکستان میں قدم نہیں رکھ سکتے‘ کیوں؟ آج ٹیلی ویژن سکرینوں پر سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کے صاحبزادے مونس الٰہی کے وارنٹس اور ان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی خبریں چل رہی ہیں اور یہ خبریں سن کر یقین نہیں آتا یہ وہی شخص ہے
جو تین سال پہلے تک ایک ٹیلی فون کرتا تھا اور بڑے بڑے عہدیدار تبدیل ہو جاتے تھے‘ یہ جو اپنے ایک اشارے سے درجنوں لوگوں کے نام ای سی ایل پر چڑھاتا تھا اور سینکڑوں لوگوں کے نام ای سی ایل سے ’’ڈراپ‘‘ کراتا تھا لیکن آج یہ گرفتاری سے بچنے کیلئے ملک سے باہر بیٹھا ہے‘ کیوں؟ آخر اس سے کیا غلطی ہوئی؟۔میں اکثر ان جرنیلوں‘ بیورو کریٹس اور ان کاروباری شخصیات کے بارے میں بھی سوچتا تھا
جو کبھی سورج کو اپنی دہلیز پر جھکنے پر مجبور کر دیتے تھے اور چاند کو اپنی چائے کی پیالی میں گھول کر پی جاتے تھے اور یہ کبھی اقتدار اور اختیار کی الف اور طاقت کی ط ہوتے تھے لیکن پھر یہ لوگ گمنامی کے اندھیرے کی سیاہی بن گئے‘ یہ اپنے ہی سائے سے محروم ہو گئے‘ انہیں زندگی کے آخری سرے پر اطمینان نصیب ہوا‘ سکون ملا‘ نیک نامی ملی اور نہ ہی دوام‘ یہ مٹھی کی ریت کی طرح آہستہ آہستہ سرکتے ہوئے زمین پر بکھر گئے‘
کیوں؟ آخر ان کا کیا قصور تھا؟ انہیں کس جرم‘ کس گناہ کی سزا ملی؟ مجھے ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ملتا تھا لیکن کل میری نظر سے حضرت علیؓ کا ایک قول گزرا اور مجھے اچانک اپنے تمام سوالوں کا جواب مل گیا‘ حضرت علیؓ نے فرمایا ’’ خبر دار اس شخص پر ظلم نہ کرنا جس کا اللہ کے سوا کوئی نہ ہو‘‘ مجھے اچانک معلوم ہوا ہمارے تمام با اختیار اور بااقتدار لوگ آج تک ان لوگوں پر ظلم کرتے آئے ہیں جن کا دنیا میں اللہ کے سوا کوئی نہیں تھا چنانچہ اللہ نے ان تمام لوگوں کو عبرت کا نشان بنا دیا‘
یہ لوگ اقتدار‘ اختیار اور عہدے سے یوں فارغ ہوئے جس طرح خزاں کے پتے سبز رنگ سے محروم ہوتے ہیں اور یہ لوگ اقتدار کی ڈال سے ٹوٹ کر یوں بکھر گئے جس طرح پیلے پتے خزاں کی ٹھنڈی ہواؤں کے بھکاری بن کر چوراہوں‘ گلیوں اور کوچوں میں رسوا ہوتے ہیں‘ یہ ظالم لوگ ہیں کیونکہ ان کے دور میں ان لوگوں پر ظلم ہوتا رہا جن کا اللہ کے سوا کوئی نہیں تھا چنانچہ یہ اس انجام کا شکار ہوئے اور شاید مستقبل میں بھی ہوتے رہیں گے
جس کا انہوں نے گمان تک نہیں کیا تھا‘ کاش کوئی ان کو سمجھائے یہ عام لوگوں پر ظلم بند کر دیں کیونکہ ان لوگوں کا اللہ کے سوا کوئی نہیں اور جن کا اللہ کے سوا کوئی نہیں ہوتا اللہ ان کی آہیں‘ ان کی سسکیاں اور ان کی بد دعائیں اس طرح سنتا ہے جس طرح صحرا رات کی تنہائی میں طوفان کے قدم گنتا ہے۔