ہفتہ‬‮ ، 21 جون‬‮ 2025 

بارہ دن

datetime 30  جون‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

زیرو پوائنٹ (جاوید چودھری)رچرڈ گری ایٹ(Garriot) استقامت کی ایک ایسی مثال ہے جو میرے جیسے کروڑوں ‘اربوں کمزور ارادے کے لوگوں کا ہاتھ تھام لیتا ہے‘ میں پچھلے دو برسوں سے جب بھی ناکام ہوتا ہوں‘ میں اپنی استطاعت اور ہمت سے بڑا کام کرنا چاہتا ہوں یا پھر میں اپنے قد کاٹھ سے بڑی چھلانگ لگانا چاہتا ہوں تومیں فوراً رچرڈ گری ایٹ کی کہانی نکال کر پڑھتا ہوں اور میری ایک ایک رگ میں بجلیاں دوڑنے لگتی ہیں۔

رچرڈ گری ایٹ کا تعلق خلا نوردوں کے خاندان کے ساتھ تھا‘ اس کا والد ناسا میں کام کرتا تھا‘ یہ ناسا کی کالونی میں پیدا ہوا اور اس نے خلا کے علاوہ کوئی لفظ نہیں سنا تھا۔ نیل آرم مسٹرانگ اس کا ہمسایہ تھا اور مستقبل کے خلا نورد اس کے ماحول کا حصہ چنانچہ اس نے بچپن میں فیصلہ کر لیا یہ بھی خلا نورد بنے گا لیکن اس کا یہ خواب تیرہ سال کی عمر میں چکنا چور ہو گیا‘ اس کی بینائی کمزور ہونا شروع ہو گئی‘ ڈاکٹروں نے اسے عینک لگانے کا حکم دے دیا اور عینک لگتے ہی یہ خلا نوردی کیلئے نا اہل ہو گیا‘ یہ اس معذوری پر ہفتہ بھر روتا رہا مگر پھر اس نے عجیب فیصلہ کیا‘ اس نے فیصلہ کیا ناسا سمیت دنیا کا کوئی ادارہ اسے خلا میں جانے سے نہیں روک سکتا‘ اس نے فیصلہ کیا یہ دنیا میں پرائیویٹ خلا نوردی کا ٹرینڈ سیٹ کرے گا‘ یہ ایک مشکل نہیں بلکہ نا ممکن فیصلہ تھا کیونکہ اس وقت تک پرائیویٹ خلا نوردی ممکن ہی نہیں تھی‘ ناسا کا اربوں ڈالر کا بجٹ تھا اور یہ بجٹ پرائیویٹ کمپنیوں کیلئے ممکن ہی نہیں تھا‘ بہرحال اس فیصلے کے بعد کہانی میں تھوڑی سی تبدیلی آتی ہے‘ اس کا والد روزانہ ناسا میں ہونے والی ریسرچ اسے لا کر دیتا‘ یہ اس ریسرچ کو پڑھتا اور اپنے دماغ کا حصہ بنا لیتا‘ یہ ہائی سکول پہنچا تو اس وقت پرسنل کمپیوٹر آ گیا‘ اس سے پہلے کمپیوٹر صرف سرکاری اداروں تک محدود تھا

اور کوئی عام شخص کمپیوٹر نہیں خرید سکتا تھا‘ اس کے سکول میں پہلا کمپیوٹر آیا تو پورے سکول میں کمپیوٹر استعمال کرنے والا کوئی شخص نہیں تھا‘ یہ کمپیوٹر ایک کمرے میں بند کر دیا گیا‘ رچرڈ گری ایٹ اس کمرے میں داخل ہوا اور اس نے کمپیوٹر پروگرامنگ شروع کر دی‘ وہ امریکا کے ان چند ابتدائی لوگوں میں شمار ہوتا ہے جنہوں نے پروگرامنگ شروع کی تھی۔آپ کو یہ جان کر بھی حیرت ہو گی رچرڈ گری ایٹ کالج جانے تک شہر نہیں گیا تھا‘

وہ جب کالج داخل ہوا تو اس نے زندگی میں پہلی بار پولیس کانسٹیبل اور قصائی دیکھے‘ اس نے اس سے پہلے یہ کردار صرف ٹیلی ویژن پر دیکھے تھے اور یہ انہیں فرضی سمجھ رہا تھا‘ اس نے کالج میں ’’الٹما‘‘ کے نام سے پہلی ویڈیو گیم بنائی اور اس پر ڈالرز کی بارش ہونا شروع ہو گئی‘ دولت آئی تو پڑھائی رخصت ہونا شروع ہو گئی یہاں تک کہ اسے کالج چھوڑنا پڑ گیا‘ وہ خاندان کا پہلا بچہ تھا جس نے تعلیم ادھوری چھوڑی تھی‘

اس سے پہلے خاندان کے تمام افراد یونیورسٹی تک پہنچے تھے اور سب نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی‘ اس کی دولت میں اضافہ ہوا تو اس نے دنیا کا ٹور شروع کر دیا‘ وہ ڈوبے ہوئے ’’ٹائی ٹینک‘‘ تک پہنچ گیا لیکن اس تمام تر کامیابی کے باوجود خلا نوردی اس کا ’’پیشن‘‘ رہا‘ وہ ہر صورت خلا میں جانا چاہتا تھا۔1990

ء کی دہائی میں ’’ایکس پرائس‘‘ کے نام سے خلا نوردی کی پہلی پرائیویٹ کمپنی بنی‘ رچرڈ گری ایٹ نے اس کمپنی میں دس ملین ڈالرز ’’انویسٹ‘‘ کر دئیے‘ وہ اس کمپنی کو بنتا اور ترقی کرتا دیکھنا چاہتا تھا‘ اس دور میں زیرو جی کارپ اور سپیس ایڈوینچر کے نام سے دو مزید کمپنیاں بھی بنیں اور اس نے ان میں بھی سرمایہ کاری کی‘ اس وقت امریکا نے پرائیویٹ شٹل کو خلا میں جانے کی اجازت دینے انکار کر دیا‘ رچرڈ گری ایٹ نے سپیس ایڈوینچر کو روس بھجوایا

اور روس کو پرائیویٹ شٹل لانچ کرنے کی اجازت دینے پر قائل کرنا شروع کر دیا‘ وہ ایک سال روس میں رہا‘ شٹل تیار ہوئی تو اس نے پہلا ٹکٹ خریدنے کیلئے اپنی ساری کمپنیاں اور سارے اثاثے بیچ دئیے‘ اس نے پہلا ٹکٹ خرید لیا لیکن آپ بدنصیبی ملاحظہ کیجئے پرائیویٹ شٹل کے خلا میں جانے سے پہلے نائین الیون ہوا اور امریکا کی سٹاک ایکس چینج مارکیٹ ‘‘کریش‘‘ ہو گئی‘ وہ بری طرح مالیاتی بحران کا شکار ہو گیا

اور اس بحران سے نکلنے کیلئے اسے اپنا وہ ٹکٹ بیچنا پڑ گیا جس کیلئے اس نے 25سال انتظار کیا تھا‘ اس نے اپنا ٹکٹ ’’ڈینس ٹیٹو‘‘ کو بیچ دیا اور ایک بار پھر ’’ویڈیو گیم انڈسٹری‘‘ میں گھر گیا‘ اس نے ایک بار پھر کروڑوں ڈالرز کمائے اور پھر یہ سارا سرمایہ دوبارہ ٹکٹ خریدنے پر لگا دیا‘ اس نے ایک اور ٹکٹ خریدا اور اب خلا اور اس کے د رمیان زیادہ فاصلہ نہیں تھا لیکن آپ قسمت ملاحظہ کیجئے‘

خلا میں جانے سے پہلے اس کا میڈیکل چیک اپ ہوا تو معلوم ہوا وہ جگر کی ایک ایسی بیماری کا شکار ہے جس میں اس کا جگر خلا کا دباؤ برداشت نہیں کر سکے گا اور وہ خلا ہی میں دم توڑ دے گا‘ اس نے ڈاکٹروں سے اس کا حل پوچھا تو ڈاکٹروں نے بتایا وہ خلا کا خیال چھوڑ دے یا پھر ایک ایسی سرجری کرائے جس میں اس کے فوت ہونے کے 95فیصد امکانات ہیں‘ وہ سرجری کیلئے تیار ہو گیا‘’ اس کے جسم پر 16انچ کا کٹ لگا‘ جگر کا آپریشن ہوا‘

آپریشن کامیاب ہو گیا‘ اس نے آنکھوں کی لیزر سرجری بھی کرا لی‘ یہ بھی کامیاب ہو گئی اور یوں رچرڈ گری ایٹ 12اکتوبر 2008ء کو 32سال کی کوشش کے بعد خلا کے سفر پر روانہ ہو گیا‘ وہ ایک ایسی گاڑی میں سوار ہو گیا جس کی رفتار 17ہزار میل فی گھنٹہ تھی‘ وہ بارہ دن خلا میں رہا‘ اس گاڑی میں دن 45 منٹ کا ہوتا تھا‘ وہ نوے منٹ میں پوری زمین کے گرد چکر لگاتا تھا اور ڈیڑھ گھنٹے میں دو بار سورج کو نکلتے اور غروب ہوتے دیکھتا تھا‘

اس نے بارہ گھنٹے میں سینکڑوں صبحیں ہوتی اور سینکڑوں شاموں کو اندھیروں میں تحلیل ہوتے دیکھا‘ یہ بارہ دن اس کے عزم‘ اس کے استقلال کا انعام تھے‘ اس نے ان بارہ دنوں کیلئے سائنس‘ ٹیکنالوجی‘ خلا نوردی کے اصولوں‘ ناسا کے قوانین اور اپنی جسمانی معذوری سب کو شکست دے دی تھی‘ اس نے ثابت کر دیا تھا انسان کا ارادہ مضبوط ہو تو قدرت بھی اپنے فیصلوں پر نظرثانی پر مجبور ہو جاتی ہے۔

میں جب بھی مایوس ہوتا ہوں یا کسی دوسرے کو مایوس دیکھتا تو مجھے رچرڈ گری ایٹ یاد آ جاتا ہے اور میں سوچتا ہوں اگر رچرڈ گری ایٹ جیسا شخص خلا تک جا سکتا ہے تو میں اور میرے جیسے لوگ اپنے حالات تبدیل کیوں نہیں کر سکتے‘ یہ اپنی معذوری‘ غربت اور بدنصیبی کی دھند صاف کیوں نہیں کر سکتے؟ ہم لوگ کتنے بے وقوف ہیں ہمیں رچرڈ گری ایٹ سے جینا سیکھنا چاہئے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



کنفیوژن


وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…

گردش اور دھبے

وہ گائوں میں وصولی کیلئے آیا تھا‘ اس کی کمپنی…

حقیقتیں

پرورش ماں نے آٹھ بچے پال پوس کر جوان کئے لیکن…

نوے فیصد

’’تھینک یو گاڈ‘‘ سرگوشی آواز میں تبدیل ہو گئی…

گوٹ مِلک

’’تم مزید چارسو روپے ڈال کر پوری بکری خرید سکتے…

نیوٹن

’’میں جاننا چاہتا تھا‘ میں اصل میں کون ہوں‘…