اشرف رُولا کو بیاہ کر افغانستان لے آیا‘یہ ایک گھسا پٹا ملک تھا‘ غربت گھر گھر کی کہانی تھی‘ چاروں طرف عسرت‘ پسماندگی اور جہالت بکھری تھی‘ خواتین کیلئے افغانستان جیل کی مانند تھا جہاں عورتوں کو گھر کی چار دیواری سے باہر جھانکنے تک کی اجازت نہیں تھی‘ چادر اور چار دیواری کی روایات افغانستان میں انتہائی سخت ہیں‘ خواتین بازاروں میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتیں‘ اگر کوئی اکا دکا خاتون نظر بھی آ جائے تو وہ شٹل کاک میں لپٹی نظر آئے گی۔ یہ منظر رُولا کیلئے انتہائی گھٹن زدہ تھا‘ وہ ایک آزاد اور لبرل خیال خاتون تھی‘ غیر مسلم خاندان میں پلی بڑھی تھی‘ حدود و قیود کا تقدس جانتی نہ تھی‘ برقع تو دور اس نے کبھی سرپر دوپٹہ بھی نہیں لیا تھا‘ یہ ماحول رُولا کیلئے انتہائی اذیت ناک تھا لیکن اس نے اشرف کی محبت میں اپنے جذبات و احساسات کو قربان کرنا شروع کر دیا‘ اس نے افغانستان کے روایتی ماحول میں ایڈجسٹ ہونے کی ٹھان لی‘ کہتے ہیں ناں محبت وہ طاقت ہے جو انسان کو غلاموں کا غلام بنا دیتی ہے۔ رُولا افغان روایات کی غلام بن گئی۔ اس دوران اشرف اعلیٰ تعلیم کے حصول امریکا چلا گیا تو رُولا بھی اس کے ساتھ امریکا پہنچ گئی‘ یہ ایک عرصہ تک امریکا میں مقیم رہے‘اشرف کو ورلڈ بینک میں ملازمت مل گئی‘ ان کے ہاں دو بچے پید اہو گئے اور زندگی پانی کی مانند ہموار ہو گئی۔