منگل‬‮ ، 18 مارچ‬‮ 2025 

ایک دوست نے میسج بھیجا کہ اگلا نشانہ آپ کا گھرہوسکتا ہے،چیف جسٹس کا انکشاف

datetime 11  مئی‬‮  2023
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی دیکر فوری رہا کر نے کا حکم دیتے ہوئے کہاہے کہ عمران خان (آج)جمعہ کو ہائیکورٹ میں دوبارہ پیش ہوں ،ہائی کورٹ جو فیصلہ دے گی آپ کو ماننا ہوگا جبکہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عمرن خان کی گرفتاری غیرقانونی تھی

عمران خان کی گرفتاری کو ہم واپس کر رہے ہیں ، عمران خان کو ہدایت کی ہے ہائی کورٹ سے رجوع کریں،خواہش ہے آپ پر تشدد مظاہروں کی مذمت کریں۔تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں عمران خان کی گرفتاری کو گزشتہ روز چیلنج کیا گیا تھا جس میں پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے عدالت میں درخواست دائر کی تھی،چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سماعت کی ۔چیئرمین پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم میں شامل سینئر وکیل حامد خان نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان ایک کیس میں ضمانت قبل از گرفتاری کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ آئے تھے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ میں کس کیس میں پیش ہوئے تھے؟۔وکیل حامد خان نے بتایا کہ عمران خان بائیومیٹرک کیلئے موجودہ تھے جب ان پر دھاوا بولا گیا، رینجرز نے عمران خان کے ساتھ بدسلوکی کی اور پر تشدد طریقے سے انہیں گرفتار کرلیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی ریکارڈ کے مطابق ہائی کورٹ میں درخواست ضمانت دائر ہوئی تاہم سماعت کیلئے مقرر نہیں ہوئی، جو مقدمہ مقرر تھا وہ بھی دیکھ لیتے ہیں۔وکیل حامد خان نے کہا کہ بائیومیٹرک کے بغیر درخواست دائر نہیں ہوسکتی۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہی بات ہے کہ عمران خان عدالت کے احاطے میں داخل ہوچکے تھے، کسی کو انصاف کے حق سے کیسے محروم رکھا جاسکتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کا احترام ہوتا ہے، کورٹ کی پارکنگ سے نیب نے ایک ملزم کو گرفتار کیا تھا، عدالت نے اس گرفتاری کو واپس کروایا تھا جس کے بعد نیب نے یقین دہانی کروائی تھی کہ احاطہ عدالت سے گرفتاری نہیں ہوگی۔

انہوں نے استفسار کیا کہ کتنے لوگوں نے عمران خان کو گرفتار کیا؟ وکیل عمران خان نے بتایا کہ 80 سے 90 افراد نے گرفتار کیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ 90 رینجرز اہلکار احاطہ عدالت میں داخل ہوئے تو عدالت کی کیا توقیر رہی؟ کسی بھی فرد کو احاطہ عدالت سے کیسے گرفتار کیا جاسکتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی میں عدالت میں توڑ پھوڑ کرنے پر وکلا کے خلاف کارروائی کی گئی۔

انہوں نے کہاکہ کسی فرد نے عدالت کے سامنے سرنڈر کردیا تو اس کو گرفتار کرنے کا کیا مطلب ہے؟ کوئی شخص بھی آئندہ انصاف کیلئے خود کو عدالت میں محفوظ تصور نہیں کریگا، گرفتاری سے قبل رجسٹرار سے اجازت لینی چاہیے تھی۔وکیل شعیب شاہین نے بتایا کہ عمران خان کی گرفتاری کے وقت عدالتی عملے کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ وارنٹ کی قانونی حیثیت نہیں اس کی تعمیل کا جائزہ لیں گے، عدالت کے سامنے سرینڈر کرنے کے عمل کو سبوتاژنہیں کیا جاسکتا۔

وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان پر حملہ ہوا، ان سے سیکیورٹی بھی واپس لے لی گئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی اٹارنی جنرل آف پاکستان کو طلب کرتے ہیں، وارنٹ کی تعمیل کیسے ہوئی سب سے اہم ہے، ہر کسی کو عدالت کے اندر تحفظ ملنا چاہیے۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ نیب نے تو ہین عدالت کی ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ ہر کوئی چاہتا ہے دوسرا قانون پر عمل کرے،

یہ عدالتوں کے احترام کا طریقہ کار نہیں۔وکیل حامد خان نے استدعا کی کہ تفتیشی افسر کی موجودگی میں عمران خان کو گرفتار کیا گیا ان کی رہائی کا حکم دیا جائے۔جسٹس محمد علی مظہر نے دریافت کیا کہ کیا وارنٹ گرفتاری چیلنج کیے گئے تھے؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ گرفتاری کے بعد معلوم ہوا کہ یکم مئی کو وارنٹ جاری کیے گئے تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت ہم گرفتاری کے طریقہ کار اور عدالت کی بے توقیری سے متعلق معاملے کا جائزہ لے رہے ہیں۔سلمان اکرم راجا نے کہا کہ سیکرٹری داخلہ نے بتایا وارنٹ ابھی تک عمل درآمد کیلئے انہیں موصول نہیں ہوئے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیاسی قیادت کی عدالتی پیشی پر بھی اچھے عمل کی توقع ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ گرفتاری کے بعد جو کچھ ہوا اسے رکنا چاہیے تھا

اس کا مطلب یہ نہیں کہ غیرقانونی اقدام سے نظر چرائی جاسکے۔انہوں نے کہا کہ ایسا فیصلہ دینا چاہیے جن کا اطلاق سب پر ہو، انصاف تک رسائی ہر ملزم کا حق ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ میانوالی کی ضلعی عدلیہ پر حملہ ہوا ہے، معلوم کریں یہ حملہ کس نے کیا ہے؟ ضلعی عدلیہ پر حملے کا سن کر بہت تکلیف ہوئی۔وکیل عمران خان نے کہا کہ عمران خان کو گھر یا عدالت کے باہر سے گرفتار کیا جاتا تو یہاں نہ ہوتے

ان کے ساتھ کوئی کارکن یا جتھہ عدالت میں نہیں تھا۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا نیب نوٹسز کا جواب بھجوایا گیا تھا۔وکیل نے بتایا کہ نیب نوٹس کا جواب دیا گیا تھا، قانون کے مطابق انکوائری کی سطح پرگرفتاری نہیں ہوسکتی۔جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل عمران خان سے دریافت کیا کہ آپ سپریم کورٹ سے کیا چاہتے ہیں؟ جس پر حامد خان نے کہا کہ عمران خان کی رہائی کا حکم دیا جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ جو چاہتے ہیں اس کا اطلاق ہر شہری پر ہوگا۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ نیب نے منتخب عوامی نمائندوں کو تضحیک سے گرفتار کیا، یہ طریقہ کار بند کرنا ہوگا، عدالت کے سامنے سرنڈر کرنے کے عمل کو سبوتاژ نہیں کیا جاسکتا۔وکیل عمران خان نے کہا کہ انکوائری مکمل ہونے کے بعد رپورٹ ملزم کو دینا لازمی ہے

جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا عمران خان شامل تفتیش ہوئے تھے؟وکیل نے بتایا کہ عمران خان نے نوٹس کا جواب نیب کو ارسال کیا تھا لہٰذا نیب کا جاری کردہ وارنٹ غیرقانونی تھا۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ نیب کے وارنٹ جاری کرنے کا نہیں بلکہ وارنٹ پر تعمیل کروانے کا طریقہ اصل معاملہ ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ نیب وارنٹ تو عمران خان نے چیلنج ہی نہیں کیے، عمران خان نیب میں شامل تفتیش کیوں نہیں ہوئے؟

کیا نیب نوٹس میں ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا کہا گیا تھا۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ قانون پر عمل کی بات نیب کرتا ہے، خود نہیں کرتا، نیب کی خواہش ہے کہ دوسرے قانون پر عمل کرے۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ واضح رہے کہ عمران خان نے نیب نوٹس پر عمل نہیں کیا تھا، نیب نوٹس کا مطلب ہوتا ہے کہ بندہ ملزم تصور ہوگا، کئی لوگ نیب نوٹس پر بھی ضمانت کروا لیتے ہیں

مارچ کے نوٹس کا جواب مئی میں دیا گیا، کیا عمران خان نے قانون نہیں توڑا؟وکیل عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کو صرف ایک ہی نوٹس موصول ہوا تھا۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جسٹس محمد علی مظہر قانون پر عمل درآمد کی بات کر رہے ہیں، اصل معاملہ انصاف کے حق تک رسائی کا ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ نیب نے کوئی سبق نہیں سیکھا، نیب پر سیاسی انجینئرنگ سمیت کئی کاموں کا الزام لگتا ہے، کیا نیب نے رجسٹرار کی اجازت لی تھی؟

پراسیکیوٹر جنرل نیب اصغر حیدر نے کہا کہ عدلیہ کا بہت احترام کرتے ہیں، نیب نے وارنٹس کی تعمیل کیلئے وزارت داخلہ کو خط لکھا تھا، انہوں نے عمل درآمد کر وایا۔جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ کیا عدالتی کمرے میں عمل درآمد وزارت داخلہ نے کیا؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ مجھے حقائق معلوم نہیں، ابھی ڈیڑھ بجے ہی تعینات ہوا ہوں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ وارنٹ کی تعمیل کوئی نجی شخص بھی کروا سکتا ہے، وارنٹ خود بھی اپنے وارنٹس پر عمل درآمد کرواتا رہتا ہے، کیا نیب نے عدالت کے اندر گرفتار کا کہا تھا؟ عمران خان کو کتنے نوٹس جاری کیے تھے؟پراسیکیوٹر جنرل نیب نے بتایا کہ عمران خان کو صرف ایک نوٹس جاری کیا گیا تھا۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ بظاہر نیب کے وارنٹ قانون کے مطابق نہیں

کیا وارنٹ جاری ہونے کے بعد گرفتاری کی کوشش کی گئی؟چیف جسٹس نے کہا کہ یکم کو وارنٹ جاری ہوئے اور 9 کو گرفتاری ہوئی، 8 دن تک نیب نے خود کیوں کوشش نہیں کی، کیا نیب عمران خان کو عدالت سے گرفتار کرنا چاہتا تھا، وزارت داخلہ کو 8 مئی کو خط کیوں لکھا گیا تھا؟نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ 9 مئی کو کیس کی سماعت کی وجہ سے 8 مئی کو وزارت داخلہ کو خط لکھا تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ نیب نے وزارت داخلہ کو کہا اور خوش قسمتی سے دوسرے دن وہ آرہا تھا

ساتھ ہی استفسار کیا کہ جب درخواست گزارکو گرفتار کیا تھا تو کیا اس وقت اپ کا کوئی نمائندہ موجود تھا؟نیب پراسیکیوٹر نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں معلومات لے کر عدالت کو آگاہ کریں گے۔جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ نیب نے وارنٹ کی تعمیل کیلئے حکومتِ پنجاب کو خط کیوں نہیں لکھا، نیب نے ملک کو بہت تباہ کیا ہے۔سردار مظفر نے کہا کہ عمران خان کا کنڈکٹ بھی دیکھیں، ماضی میں مزاحمت کرتے رہے ہیں، اس لیے نیب کو جانوں کے ضیاع کا بھی خدشہ تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے بقول وارنٹ کی گرفتاری کا طریقہ وفاقی حکومت نے خود طے کیا تھا، کیا نیب کا کوئی افسر گرفتاری کے وقت موجود تھا؟تاہم نیب افسران عمران خان کی گرفتاری کے وقت تفتیشی افسر کی موجودگی کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب اس ملک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا چکا ہے، ہمیں قانون نہ سکھائیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درخواست گزار کو کس فورس نے گرفتار کیا، ہم یہ ڈھونڈنا چاہتے ہیں کہ گرفتار کس فورس نے کیا؟وکیل نیب نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں آئی جی اسلام آباد نے بتایا تھا کہ انہوں نے گرفتار کیا، ہائی کورٹ کے آرڈر کے مطابق گرفتاری پولیس کی نگرانی میں کی گئی۔ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ پولیس نے رینجرز کی مدد سے گرفتاری کی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عدالتی حکم کے مطابق پولیس کارروائی کی نگرانی کر رہی تھی، رینجرز کے کتنے اہلکار گرفتاری کیلئے موجود تھے؟ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ رینجرز نے پولیس کے ماتحت گرفتاری کی تھی، رینجرز اہلکار عمران خان کی سیکیورٹی کیلئے موجود تھے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب نے وارنٹ کی تعمیل سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا ہے۔ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ کسی قانون کے تحت رجسٹرار سے اجازت لینے کی پابندی نہیں تھی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا شیشے اور دروازے توڑے گئے؟ ضابطہ فوجداری کی دفعات 47 سے 50 تک پڑھیں، بائیو میٹرک برانچ کی اجازت کے بغیر بھی شیشے نہیں توڑے جاسکتے۔ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ عمران خان کو کہیں اور گرفتار کرنا ممکن نہیں تھا، عمران خان ہر پیشی پر ہزاروں افراد کو ساتھ آنے کی کال دیتے تھے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلاتے ہوئے کہا کہ انصاف تک رسائی کے حق پر اٹارنی جنرل کو سنیں گے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سابق وزیراعظم کے ساتھ نیب جو کر رہا ہے وہ معمول بن چکا ہے، نیب ایک آزاد ادارہ ہے۔انہوں نے کہا کہ نیب نے 8 مئی کو رینجرز تعینات کرنے کی تحریری طور پر درخواست کی تھی لیکن رینجرز تعینات کرنے کی درخوست وارنٹس پرعمل درآمد کیلئے نہیں تھی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ نیب نے سارا الزام وفاقی حکومت پر ڈال دیا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ملزم سرینڈر کرے اور گرفتار کیا جائے تو عدالت گرفتاریوں کیلئے آسان مقام بن جائیگا، ملزمان کے ذہن میں عدالتیں گرفتاری کی سہولت کار بن جائیں گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتیں آزاد ہوتی ہیں، آزاد عدلیہ کا مطلب شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔عدالت نے ریمارکس دئیے کہ سال 2012 سے 2022 تک عدالتوں میں 31 قتل ہوئے تھے، ایسا ہونے دیا تو نجی تنازعات بھی عدالتوں میں ایسے نمٹائے جائیں گے، بطور چیف جسٹس ہائی کورٹ ایکشن لیا اور اگلے سال کوئی واقعہ نہیں ہوا تھا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ گرفتاری پر ہائی کورٹ نے توہین عدالت کی کارروائی کی ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ کیلئے دفاع کرنا مشکل ہورہا ہے؟

انہوں نے ریمارکس دئیے کہ دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی بہت برا سلوک ہوا ہے، حالیہ گرفتاری سے ہر شہری متاثر ہو رہا ہے، عدالت سے گرفتاری بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ وارنٹ گرفتاری کی قانون حیثیت پر رائے نہیں دینا چاہتے، کیا مناسب نہیں ہوگا کہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد بحال کیا جائے، کیا مناسب نہیں ہوگا عمران خان کی درخواست ضمانت پر عدالت فیصلہ کرے؟انہوں نے ریمارکس دئیے کہ ملک میں بہت کچھ ہوچکا ہے، وقت آگیا ہے کہ قانون کی حکمرانی قائم ہو،

گرفتاری کو وہیں سے ریورس کرنا ہوگا جہاں سے ہوئی تھی۔دورانِ سماعت عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو عمران خان کو ایک گھنٹے تک پیش کرنے کا حکم دیا۔ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت کو آگاہ کیا کہ احتساب عدالت نیب کو ان کا جسمانی ریمانڈ دے چکی ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ ایسی گرفتاری کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔

چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ عمران خان کی پیشی پر کارکنوں کو آنے کی اجازت نہیں ہوگی، عدالت معاملے پربہت سنجیدہ ہے۔اس موقع پر اٹارنی جنرل نے (آج) جمعہ تک مہلت دینے کی استدعا کی جسے چیف جسٹس نے مسترد کر دیا اور ریمارکس دیے کہ عدالت مناسب حکم جاری کریگی۔بعد ازاں سابق وزیراعظم عمران خان کو پولیس نے تقریباً پونے 6 بجے تک عدالت میں پیش کیا، عمران خان کے کمرہ عدالت میں داخلے کے بعد کمرہ عدالت کے دروازے بندکردئیے گئے۔

عدالت عظمیٰ میں جب سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو چیف جسٹس عمر عطابندیال نے عمران خان کو روسٹرم پر بلالیا اور کہا کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے، ہم آپ کوسنناچاہتے ہیں، یہ بات کی جا رہی ہے کہ آپ کے کارکنان غصے میں باہر نکلے۔سپریم کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں فوری رہا کرنے کا حکم دیا اور عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے دوبارہ رجوع کرنیکا حکم بھی دیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ جب ایک شخص کورٹ آف لائ￿ میں آتاہے تو مطلب کورٹ کے سامنے سرنڈر کرتا ہے

ہم سمجھتے ہیں عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی ہے،آپ 8 مئی کو کورٹ میں بائیو میٹرک روم میں موجود تھے، اسلام آباد ہائی کورٹ (آج) جمعہ کو کیس کی سماعت کرے، عمران خان (آج) جمعہ کو ہائی کورٹ میں پیش ہوں، ہائی کورٹ جو فیصلہ کرے وہ آپ کو ماننا ہوگا، عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی تھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں آپ کی گرفتاری کے بعد تشدد کے واقعات ہو رہے ہیں

ہم ملک میں امن چاہتے ہیں، عدالت چاہتی ہے آپ خود ملک میں فسادات کی مذمت کریں، سپریم کورٹ ہر شہری کو قانونی حق دے گی، آپ سابق وزیر اعظم اور سینئر لیڈر ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ جیسے لیڈر دوبارہ نہیں آئیں گے، اتنے بڑے لیڈرز کو مارنے کے بعد بھی حالات کنٹرول میں رہے، سپریم کورٹ کی وجہ سے آپ آج یہاں کھڑے ہیں، عمران خان پورے لک میں عوام کو اپنے ورکرز کو امن وامان کا پیغام دیں، سیاسی ماحول سیاسی رہنماؤں کی وجہ سے خراب ہے۔

عمران خان نے کہا کہ جو کچھ انتشار ہوا میری گرفتاری کے بعد ہوا، مجھے کمانڈو ایکشن کر کے سر پر ڈنڈے مارے گئے، دہشتگردکی طرح مجھے پکڑ کر لے گئے، مجھے خبروں کا بھی نہیں بتایا گیا، میرا موبائل لے لیا گیا، مجھے پتا ہی نہیں ملک میں کیا ہوا ہے، میں نے پوچھا پھر بھی کچھ نہیں بتایا گیا، میں حیران تھا، صدمہ ہوا جیسے اچانک پکڑا، نیب نے گرفتاری کے بعد مجھے نوٹس دکھایا،مجھے کرمنل کی طرح پکڑا گیا

جو میرے ساتھ ہوا اس کا ری ایکشن تو آئے گا۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ ایسا نہ کہیں،میڈیا موجود ہے احتیاط سے بات کریں، خان صاحب جو آپ بولیں گے ہر لفظ اہم ہوگا۔عمران خان نے کہا کہ یہاں میڈیا موجود ہے، پیغام دینا چاہتاہوں، میں تو گرفتار تھا، پرتشدد مظاہروں کا ذمہ دارکیسے ہوگیا؟ میرا موبائل فون لے لیا گیا، مجھے پتہ ہی نہیں ملک میں کیا ہوا،میں نے کبھی انتشارکی بات نہیں کی

ہم ملک میں صرف الیکشن چاہتے ہیں، سب کو کہتا ہوں سرکاری اور عوامی املاک کو نقصان نہ پہنچائیں۔عمران خان نے کہا کہ مجھے کبھی پولیس لائن اورکبھی کہیں لیکر پھرتے رہے، مجھے سمجھ نہیں آیا ہوا کیا ہے، میں نے نیب نوٹس کا جواب دیا تھا، ملک میں آزادانہ الیکشن چاہتا ہوں۔چیف جسٹس نے کہاکہ آپ مذاکرات کا آغاز کریں اس سے معاشرے میں امن آئیگا، یہ اچھی بات ہے آپ عوام کے حقوق کے امین ہیں

دونوں طرف سے بیانیہ شدید ہو چکا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان اس وقت سپریم کورٹ کی تحویل میں ہیں، عمران خان پولیس لائنزگیسٹ ہاؤس میں رہیں گے، ممکن ہو تو اسلام آباد ہائی کورٹ میں 11 بجے سماعت مقرر کی جائے، قلم اور اللہ کی طاقت کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں، ہمیں آپ کی سکیورٹی عزیز ہے، عمران خان سے دس افراد کو ملنے کی اجازت ہوگی

عمران خان سے ملنے والوں میں ان کے اہل خانہ ، وکلاء اور دوست شامل ہوں گے۔عدالت نے عمران خان کو اپنے قریبی افرادکی لسٹ فراہم کرنے کی ہدایت بھی کی۔چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے دو اصول طے کیے ہیں، اصول یہ ہے کہ عدالت کے احاطے سے کسی شہری کو آئندہ گرفتار نہیں کیا جائیگا، احاطہ عدالت سے گرفتاری کے لیے پولیس کے سوا کوئی نفری بغیر اجازت نہیں آئیگی۔

اس موقع پر عمران خان نے عدالت سے استدعا کی کہ مجھے بنی گالا جانے دیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان کی سکیورٹی یقینی بنانا آئی جی اور اٹارنی جنرل کی ذمہ داری ہے، عمران خان (آج) جمعہ تک سپریم کورٹ کی تحویل میں ہیں، ڈر یہ ہے کہ ہماری کسٹڈی میں عمران خان کو کچھ نہ ہو۔عمران خان نے کہا کہ آپ کی کسٹڈی کی وجہ سے برکت آگئی ہے۔عمران خان نے بنی گالہ کو سب جیل قرار دینے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔چیف جسٹس نے کہاکہ جس گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرایا گیا

اس کے تین کمرے ہیں، وہاں گپ شپ لگائیے گا، سوجائیے گا اور جمعہ کو ہائی کورٹ میں پیش ہوجائیں،گیسٹ ہاؤس میں بھی آپ آرام سے رہیں گے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہائی کورٹ وقت پر پہنچنا ہے، تاخیر کی تو اس عدالت کے لیے مسئلہ ہوگا۔چیف جسٹس نے کہا کہ احاطہ عدالت کے اندر شہریوں کو آزادی ہونی چاہیے۔عمران خان نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ باہرکیا ہو رہا ہے، جو باہر ہو رہا ہے میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لیڈر یہ نہیں کہہ سکتا کہ کارکنان جو کر رہے ہیں وہ ذمہ دار نہیں

جو کچھ ہو رہا ہے آپ اس کے ذمہ دار ہیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارے سامنے صرف ضمانت کا معاملہ ہے، میرے ساتھی ججز جو کہہ رہے ہیں ہمارے سامنے وہ کیس نہیں، بے شک آپ کو مخالفین پسند نہیں تاہم ان کیساتھ بیٹھ کر سیاسی بات چیت کریں، آپ نے خود کہا کہ جلاؤ گھیراؤیا املاک کا نقصان نہیں چاہتے، جب آپ آئین کے تحت عوام کی نمائندگی کرتے ہیں تو آپ پر آئینی ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں، 23 کروڑ عوام انتظارکر رہے ہیں ہمارے لیڈر اس رکی ہوئی کشتی کو آگے بڑھائیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ناقابل یقین ہے کہ دونوں طرف سے بیانیہ جارحانہ ہوگیا ہے، یقین نہیں آتا کس کس طرح کی زبان استعمال کی جاتی ہے، مجھے ایک دوست نے میسج بھیجا کہ اگلا نشانہ آپ کا گھربھی ہوسکتا ہے، میسج میں کہا گیا ہے کہ آپ کے گھر کو بھی آگ لگائی جاسکتی ہے۔چیف جسٹس نے عمران خان سے کہا کہ آپ کے خلاف متعدد کیس ہیں، اس پر عمران خان نے کہا کہ اتنے بھی کیس نہیں ہیں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ ان کی جانب سے آپ کے خلاف بہت سے کیس کیے گئے، آپ کو معلوم ہے میں کس کی بات کر رہا ہوں، انہوں نے بھی بہت قربانیاں دی ہیں، ہم غریب ملک ہیں، جو کچھ ہو رہا ہے اس سے بچیں، عمران خان آپ کو کیسز کا سامنا رہیگا، املاک کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے، عمران خان آپ کو (آج) جمعہ کو لوگوں کو عدالت آنے سے روکنا ہے، عمران خان بطور مہمان یہاں رہیں گے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہم وارنٹ کے قانونی یا غیر قانونی ہونے کی تفصیل میں نہیں جا رہے

تحریک انصاف کے خلاف 25 مئی کی توہین عدالت بھی زیر التوا ہے۔عمران خان نے کہا کہ 25 مئی سمیت جب بھی انتشارکا خدشہ ہوا میں نے اپنا احتجاج ختم کیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ امید ہے آپ اپنا تعاون اورکردار ادا کریں گے، دوسرے فریق سے بھی یہی امید ہے، عمران خان اپنی فیملی کے 6 ممبرز کو ساتھ رکھ سکتے ہیں، گیسٹ ہاؤس میں کمرے زیادہ ہیں ،فیملی ساتھ رہ سکتی ہے۔عمران خان سپریم کورٹ میں پیشی کے بعد عدالت سے روانہ ہوگئے، عمران خان کو ڈی آئی جی سیکورٹی کی گاڑی میں بٹھایا گیا

عمران خان کو پولیس اور رینجرز کے حصار میں پولیس لائنز گیسٹ ہاؤس پہنچایا گیا۔خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے اپنے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا تھا۔رہنما پی ٹی آئی فواد چوہدری اور بیرسٹر علی ظفر نے گزشتہ روز سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔عمران خان کو 9 اپریل کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے رینجرز کی مدد سے القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کیا تھا۔

عمران خان 7 مقدمات میں ضمانت کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے تھے جہاں سے رینجرز نے ان کو حراست میں لے لیا تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی گرفتاری کا نوٹس لیا تھا جس کے فیصلے میں ان کی گرفتاری کو قانون کے مطابق قرار دیا گیا تھا۔نیب کا اصرار تھا کہ عمران خان کی گرفتاری نیب کی جانب سے کی گئی انکوائری اور تفتیش کے قانونی تقاضے پورا کرنے کے بعد کی گئی۔

نیب نے کہا کہ انکوائری/تفتیش کے عمل کے دوران عمران خان اور ان کی اہلیہ کو متعدد نوٹس جاری کیے گئے کیونکہ وہ دونوں القادر ٹرسٹ کے ٹرسٹی تھے، تاہم انہوں نے یا ان کی اہلیہ کی جانب سے کسی بھی نوٹس کا جواب نہیں دیا گیا۔گرفتاری کے اگلے روز عمران خان کو پولیس لائنز میں منتقل کردہ احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔عدالت میں نیب نے ان کے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی تاہم عدالت نے انہیں عمران خان کا 8 روزہ ریمانڈ دے دیا تھا۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟ (پہلا حصہ)


قیام پاکستان کے وقت بلوچستان پانچ آزاد ریاستوں…

اچھی زندگی

’’چلیں آپ بیڈ پر لیٹ جائیں‘ انجیکشن کا وقت ہو…

سنبھلنے کے علاوہ

’’میں خانہ کعبہ کے سامنے کھڑا تھا اور وہ مجھے…

ہم سیاحت کیسے بڑھا سکتے ہیں؟

میرے پاس چند دن قبل ازبکستان کے سفیر اپنے سٹاف…

تیسری عالمی جنگ تیار(دوسرا حصہ)

ولادی میر زیلنسکی کی بدتمیزی کی دوسری وجہ اس…

تیسری عالمی جنگ تیار

سرونٹ آف دی پیپل کا پہلا سیزن 2015ء میں یوکرائن…

آپ کی تھوڑی سی مہربانی

اسٹیوجابز کے نام سے آپ واقف ہیں ‘ دنیا میں جہاں…

وزیراعظم

میں نے زندگی میں اس سے مہنگا کپڑا نہیں دیکھا تھا‘…

نارمل ملک

حکیم بابر میرے پرانے دوست ہیں‘ میرے ایک بزرگ…

وہ بے چاری بھوک سے مر گئی

آپ اگر اسلام آباد لاہور موٹروے سے چکوال انٹرچینج…

ازبکستان (مجموعی طور پر)

ازبکستان کے لوگ معاشی لحاظ سے غریب ہیں‘ کرنسی…