ہفتہ‬‮ ، 30 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

چیف جسٹس مستعفی ہوں ،ایسا لگتا ہے وہ اپنی مدت کے دوران انتخابات کرانا چاہتے ہیں، عطا اللہ تارڑ

datetime 8  اپریل‬‮  2023
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور( این این آئی)وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے داخلہ و قانونی امور عطا اللہ تارڑنے چیف جسٹس پاکستان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہیں ساز باز ہے اس لئے وہ مدت کے دوران انتخابات کرانا چاہتے ہیں ، پنجاب ہی کیوں آپ کو خیبر پختوانخواہ نظر نہیں آیا ، آپ نے پنجاب کے انتخابات کی

تاریخ کا اعلان کر کے ثابت کر دیا آپ تحریک انصاف کی بی ٹیم ہیں،ایسے میں کون آپ کے فیصلوں کو مانے گا اور کیوں مانے گا جب آپ ادارے پر سوالیہ نشان لگا دیں گے ، ہمارے دل میں عدلیہ کے ادارے کا بڑا احترام ہے ،اس کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے ہم اس پر دکھی ہیں ، آپ سے اپیل ہے ادارے کی ساکھ کو بچائیں عدل کے نظام کو بچائیں، لاڈلے کی سہولت کاری بند کریں ،اگر عدلیہ سے سہولت کاری بند نہیں ہوتی تو ہم اپنے لائحہ کا اعلان کریں گے ،کابینہ نے کون سا غلط کام کیا جو اس پر توہین عدالت لگ جائے،قرارداد پارلیمنٹ نے پاس کی ہے ، پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے ،عدالت پارلیمنٹ کے کام میں مداخلت نہیں کر سکتی،صدر نے بل پر جو تحفظات اٹھائے ہیںہم ان سے اتفاق نہیں کرتے ،اس بل کو منظوری کے لئے اگلے ہفتے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا جائے گااوراکثریت رائے سے منظور کرایا جائے گا۔پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹائون میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ ملک میں تمام بحرانوںنے جو جنم لیا ہے وہ اس ایک عدالتی احکامات کے نتیجے میں ہے جس میں عدالت کا جھکائو ایک سیاسی پارٹی کی طرف دیکھا جا سکتا ہے ۔ ملک میں جو معاشی اور سیاسی بحران ہے اور نظام عدل کو جو باقاعدہ دائو پر لگا دیا گیا ہے وہ ایک سیاسی جماعت کی سہولت کاری کی وجہ سے ہوا ۔ یہ بات سیاسی جماعتیں کرتیں تو سمجھا جاتا کہ آن کی آپس کی مخالفت ہے تقسیم ہے اور سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی مخالفت میں ایسی باتیں کرتی ہیں

مگر اب یہ باتیں سیاسی جماعتیںنہیں کر رہیں بلکہ یہ باتیں ججز کی طرف کی جارہی ہیں یہ سول ججز ،سیشن جج کی سطح پر نہیں کی جارہیں بلکہ سپریم کورٹ کے معزز ججز صاحبان کی طرف سے کی جارہی ہیں۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ تقسیم اس حد بڑھ گئی ہے لیکن اتنا وقت گزر جانے کے باوجود ایک فل کورٹ کی میٹنگ کال نہیں ہوسکی ،

چاہیے تو یہ تھا قوم کو پیغام دیا جاتا ہے کہ پوری سپریم کورٹ متحد ہے کوئی تقسیم نہیں ہے اورآپس میں ہم آہنگی ہے ، قانونی اور آئینی معاملات پر کوئی اختلافات رائے نہیں پایا جاتا اور یہ ابہام دور ہو جاتا مگر اب تک وہ چار تین ، تین دو کی بحث سے قوم نکل نہیںپائی ۔جسٹس اطہر من اللہ صاحب جن کے بارے میں عمران خان کہتے ہیں کہ ان کا ہر فیصلہ بہت اچھا ہوتا ہے

ان کے ہر فیصلے کو ماننا چاہیے وہ ان کی تعریف کرتے نہیں تھکتے اور ان کی فرض شناسی کی گواہی دیتے رہے ہیں اب ان جج صاحب کا بھی تحریری نوٹ سامنے آگیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ صاحب کا جو اختلافی نوٹ آیا میری اپنی دانسٹ کے مطابق اس میں چیف جسٹس صاحب کے حوالے سے بہت سارے سوالات اٹھائے گئے ہیں جو بڑے اہم اور غور طلب ہیں۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ کیا جسٹس اطہر من اللہ نے خود کو بنچ سے علیحدہ کیا تھا ، انہوں نے نہ اپنے آپ کو بنچ سے علیحدہ کیا نہ انہوںنے کیس سننے سے معذرت کی ،جسٹس اطہر من اللہ کو اس بنچ سے آئوٹ رکھا گیا اور یہ چیف جسٹس پر بہت بڑا الزام اور چارج شیٹ ہے ، جسٹس اطہر من کو اللہ کو بغیر کسی وجہ سے بنچ سے الگ کیا گیا ، اگر کوئی بنچ بن جائے جب تک جج معذرت کر لے یا نیا بنچ تشکیل نہ دیا جائے وہ بنچ چلتا رہتا ہے ،

آپ کسی جج کو اس سے الگ نہیں کر سکتے ، سوال یہ ہے کہ جسٹس اطہر من اللہ کو اس بنچ کا حصہ کیوں نہیں بنایا گیا ؟۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ از خود نوٹس تب ہو سکتا ہے جب پسے ہوئے طبقات کا معاشرے میں استحصال ہو رہا ہو یا ایسی اقلیت ہے جس کو اپنے حقوق کے تحفظ کی ضرورت ہے اس میں سپریم کورٹ براہ راست مداخلت کرے، لیکن یہاں پر از خود نوٹس کا استعمال طاقتو لوگوں اور سیاسی معاملات کے لئے کیا گیا ۔

اب تو باقاعدہ پارلیمان میں سیاسی جماعتوںمیں عدالتی مداخلت کی ٹرم آ گئی ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جج جو گائون پہنتے ہیں وہ جج کا ہونا چاہیے اس گائون کے نیچے کوئی سیاستدان نہیں ہونا چاہیے ، سیاسی اختلافات سیاسی تنازعے میں عدالت کی مداخلت نہیں ہونے چاہئیں۔اراکین کے ووٹ ڈالنے اور انہیں سزا دینے کے حوالے سے آئین کو ری رائٹ کیا گیا ، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ گنا ہ سر زد نہ ہو اور آپ کو سزا بھی دیدی جائے کیونکہ ایک سیاسی جماعت کو فائدہ پہنچانا مقصود تھا۔

عمران خان لاڈلا ہے چلیں اس کی سہولت کاری ہوتی ہے ، اس کی چوری چکاری پر نرم رویہ ہے ، اداروں کے خلاف ہرسرائی پر اس کیلئے نرم رویہ ہے،عدالت اس کے لئے نرم گوشہ رکھتی ہیں ۔ مگر اس کے لاڈ میں پیار میں آئین کو دوبارہ لکھ دیا گیا ، اس کی چوری چکاری کو پس پردہ ڈال دیں لیکن وہ اتنا لاڈلا تھاکہ آئین جو ہماری مقدس کتاب ہے اس لاڈلے کی خاطر اس کو از سر نو لکھا گیا تاکہ اس کی پنجاب میں حکومت قائم ہو سکے اور ہم نے ہوتے ہوئے دیکھا ہے ۔انہوں نے کہا کہ جس تاریخ کو ذوالفقار علی بھٹو عدالتی قتل ہوااسی دن عدالت نے ایک اور فیصلہ دیا ،

جب تاریخ لکھی جائے گی جب عدلیہ کے سیاہ باب کو لکھا جائے گا تو اس میں عدلیہ کے کردار کو اورآئین کو از سر نو لکھنا بھی لکھا جائے گا ۔انہوں نے کہا کہ یہ کہا گیا کہ پارٹی سربراہ ڈکٹیٹر ہوتا ہے تو پھر لوگ کہہ رہے ہیں چیف جسٹس کیا ہوتا ہے ، رولز کہتے ہیں سب ججز برابر ہیں صرف سنیارٹی کی وجہ سے ایک کو چیف جسٹس بنایا جاتا ہے لیکن وہ مادر پدر آزد نہیں کہ مرضی کے بنچ بنائے ،کسی سے مشورہ نہ کر ے،عدالت کو تقسیم کر ے اورایک سیاسی جماعت کی سہولت کاری میں آئین کو لکھے ، آئین کو دو دفعہ ری رائٹ کر دیا اور پنجاب میں حکومت بھی بنا دی ۔

انہوں نے کہا کہ ہم انتخابات سے بھاگنے والے نہیں ، مریم نواز کھڈیا ں خاص میں عمران خان کے مینا رپاکستان سے بڑا جلسہ کر لیتی ہیں ، ہماری عوامی رابطہ مہم جاری ہے ۔انہوں نے کہا کہ پنجاب میں انتخابات کی نوبت تب آئی جب لاڈلے کو حکومت دی گئی اور لگتا ہے ساز باز اسی لئے ہے کہ اپنے ہوتے ہوئے انتخابات کرانے ہیں ۔ پہلے آئین کی غلط تشریح کر کے 63اے کو دوبارہ لکھتے ہیں ،دوبارہ حکومت توڑنے کا موقع دیا جاتا ہے اور پھر الیکشن کے لئے مرضی کی تاریخ دی جاتی ہے ،ججز صاحبان کہہ رہے ہیں کہ آپ نے پروسیجر کو فالو نہیں کیا ، لاہور ہائیکورٹ کو فیصلہ کرنے دیں ،

بنچ سے ایک ایک جج اٹھتا ہے لیکن تین رکنی بنچ ضد پر اڑا تھا کہ مرضی کی تاریخ دینی ہے ، یہ کوئی ایک واقعہ نہیں بلکہ اس طرح کے واقعات کی فہرست ہے کہ سیاسی جماعت کی سہولت کاری کی گئی ہے اور فائدہ دینے کے لئے آئین کو تبدیل کیا گیا ۔ عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ مطالبہ ہے چیف جسٹس کو فی الفور مستعفی ہو جانا چاہیے ، یہ صرف ہماری آواز نہیں اس آواز میں سول سوسائٹی اور وکلاء شامل بھی ، جسٹس اطہر من اللہ کے اختلافی نوٹ سے واضح ہوتا ہے کہ آئین و قانون سے کھلواڑ کیا گیا ہے ،چیف جسٹس نے باقی ججز کو آن بورد نہیں لیا ،اگر تقسیم نہیں چاہتے تھے تو تو فل کورٹ تشکیل دیتے

لیکن انہوں نے باقی جج صاحبان کو اس کے قابل نہیں سمجھا کہ انہیں ساتھ بٹھایا جائے ۔انہوں نے کہا کہ ایک عام شہری نے بھی چیف جسٹس کے خلاف جوڈیشل مس کنڈکٹ کا ریفرنس دائر کیا ہے ۔ اب تو ساری بات کھل کر سامنے آگئی ہے ، آپ کو کیوں مستعفی نہیں ہونا چاہیے ،یہ عوام کی آواز ہے کہ آپ مستعفی ہوں ۔ آپ نے ریفرنسز دائر ہونے کے باوجود جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا ریفرنس نہیں لگایا کیونکہ وہ آپ کی گروپنگ میں شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں دیوار سے لگانا ہو تو گھنٹوں میں کیسوں کے فیصلے ہوتے ہیں،محمد خان بھٹی کا بیان کہاں گیا ، یہ تاثر ہے کہ عدلیہ کبھی اتنی متنازعہ نہیں ہوئی جتنی آج ہے ۔

جسٹس منصور علی شاہ نے آرڈر میں لکھا ہے کہ ون مین شو ہے ، اجتماعیت کی بجایء انفرادیت پر مبنی سوچ ہے جو اپنے مفاد اور ایک سیاسی جماعت سے جڑی ہے ۔انہوں نے کہا کہ چلیں بوجھل دل سے مان لیتے ہیں کہ لاڈلے کی سہولت کاری میں اس کے تمام گناہ معاف کئے لیکن اس کے لئے آئین دوبارہ لکھ دیا ، آپ کے خلاف برادر ججز لکھ رہے ہیں لیکن اسے خاطر میں نہیں لایا جاتا ۔انہوں نے کہا کہ معاملات بڑے سنگین ہیں آپ کو اپنا ہائوس ان آرڈر کرنا ہوگا ، ایسے میں کون آپ کے فیصلوں کو مانے گا اور کیوں مانے گا جب آپ ادارے پر سوالیہ نشان لگا دیں گے ، ہمارے دل میں عدلیہ کے ادارے کا بڑا احترام ہے

اس کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے ہم اس پر دکھی ہیں ، آپ سے اپیل ہے ادارے کی ساکھ کو بچائیں عدل کے نظام کو بچائیں ، لاڈلے کی سہولت کاری بند کریں ، جو ریفرنس آ چکا ہے اسے لگائیں۔اگر عدلیہ سے سہولت کاری بند نہیں ہوتی تو ہم اپنے لائحہ کا اعلان کریں گے ۔عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ جب جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحی آفریدی، جسٹس اطہر من اللہ اورجسٹس جمال خان مندوخیل کے آرڈرز آئے تو اس پر بحث شروع ہوئی ، اگر یہ جوڈیشل آرڈر نہ آتے تو اس وقت پارلیمنٹ میں یہ بحث نہ ہو رہی ہوتی ۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں الگ سے انتخابات کی گنجائش نہیں ہے ، تاریخ میں کبھی اس طرح انتخابات نہیں ہوئے ،

شفافیت کے لئے نگران حکومتیں ہی انتخابات کراتی ہیں ۔ پنجاب جو ملک کا 55فیصد ہے اگر وہاں کسی کی حکومت آتی ہے تو قومی اسمبلی اور باقی اسمبلیوں کے انتخابات کی شفافیت ممکن ہو سکے گی ۔ ہمارا یہ بھی سوال ہے کہ پنجاب ہی کیوں ،آپ کو خیبر پختوانخواہ نظر نہیں آیا ، آپ نے پنجاب کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر کے ثابت کر دیا آپ تحریک انصاف کی بی ٹیم ہیں،خیبر پختوانخواہ میں انتخابات کا فیصلہ کیوں نہیں آیا اس سے لگتا ہے سہولت کاری کی جا رہی ہے۔ پنجاب کا خیبر پختوانخواہ اور بلوچستان سے بارڈر لگتا ہے ، سیکرٹری دفاع نے انتخابات کے لئے ڈیوٹی سے معذرت کر لی ہے ۔انہوںنے کہا کہ اگر آئین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف بات کرنے کو جرم کہاجاتا ہے تو بار بار کروں گا۔ انہوںنے کہا کہ فواد چوہدری کی آڈیو میں 228لگانے کاکہااگر میرے خلاف کارروائی ہوتی تو فواد چوہدری مینج کروائے گا، فواد چوہدری (ن)لیگ سے رابطے میں ہیں عمران خان کی مخبریاں کرتا رہا ،

اس کی (ن)لیگ میں کوئی جگہ نہیں ہے ۔ انہوںنے کہا کہ پیپلز پارٹی حکومتی اتحاد کا حصہ ہے ، پیپلز پارٹی کو کوئی اختلاف نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ کابینہ نے کون سا غلط کام کیا جو اس پر توہین عدالت لگ جائے،قرارداد پارلیمنٹ نے پاس کی ہے ، پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے ،عدالت پارلیمنٹ کے کام میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ انہوںنے کہا کہ آئین پابندکرتا صدر مملکت روز میں بل واپس کریں ، صدر نے بل پر جو نکات اٹھائے ہیں ان میں کوئی وزن نہیں ہے ، ان کی طرف سے جو تحفظات اٹھائے گئے ہیں ہم ان سے اتفاق نہیں کرتے ،اس بل کو منظوری کے لئے اگلے ہفتے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا جائے گااوراکثریت رائے سے منظور کرایا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ صاف صاف لگ رہا ہے کہ کوئی شخص اپنی نگرانی میں انتخابات کرانا چاہتے ہیں اور عمران خان کی سہولت کرنا چاہتے ہیں، پہلے بھی ایک شخص نے پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت قائم کی تھی اب بھی قائم کرنا چاہتا ہے اور اپنی مدت کے دوران کرنا چاہتا ہے ۔

موضوعات:



کالم



ایک ہی بار


میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…