لاہور (این این آئی) پاکستان تحریک انصاف نے نگران وزیر اعلیٰ اور آئی جی کی پی ٹی آئی کے کارکن ظل شاہ کی ہلاکت پر پریس کانفرنس کو کور اپ اسٹوری قرار دے کر عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ علی بلال کی موت حادثے کا نتیجہ تھی توعمران خان سمیت دیگر قیادت پر جھوٹا پرچہ کیوں درج کیا گیا؟،
مریم نواز دودن پہلے بتاچکی تھیں کہ کوراپ کیا بنانا ہے، ظل شاہ کا ناحق خون حکمرانوں کو لے ڈوبے گا۔پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما فواد چوہدری نے فرخ حبیب، مسرت جمشید چیمہ، ذوالفقار زلفی اور دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ علی بلال کو لاٹھیاں ماری گئیں جس کی ویڈیو سامنے آئی ہے،تصاویر بتاتی ہیں کہ ظل شاہ پر بد ترین تشدد ہوا، پوری تفتیش نہیں ہوئی اور قتل کو حادثہ قراردے دیا گیا،نگران وزیر اعلیٰ اس وقت طاقت اور اقتدار کے نشے میں ہے، جب یہ حکومت سے الگ ہوں گے تو ان کے اردگر بیٹھے جو لوگ ہیں ا ن میں وعدہ معاف گواہ بننے کی ریس لگی ہو گی۔ انہوں نے کہاکہ صبح تک انتظامیہ ہمارے ساتھ بیٹھ کر ریلی کا روٹ طے کر رہی ہوتی ہے جبکہ اچانک بارہ بجے حکم آتا ہے اور دفعہ 144نافذ کر دی جاتی، ہم مطالبہ کرتے ہیں اس پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے،یہ بھی مطالبہ کیا کہ محسن نقوی کو کام سے روکا جائے، ظل شاہ کے قتل پر قانونی کارروائی کریں گے، پوسٹمارٹم میں وزیرصحت کا کیا کام ہے؟ پنجاب حکومت خود کہتی ہے کہ قتل ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ پہلے کرائم منسٹرکا ٹائٹل شہبازشریف کے پاس تھا، اب یہ ٹائٹل محسن نقوی کے پاس آگیا ہے۔چیف جسٹس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جوڈیشل کمیشن بنایا جائے، جب یہ حکومت جائے گی تو سارے جیل میں ہوں گے۔فواد چوہدری نے کہا کہ پوسٹمارٹم رپورٹ میں 26 زخموں کی نشاندہی کی گئی، ظل شاہ ہمارے ہر پروگرام میں شرکت کرتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم ریلی کے لیے تیار تھے تو دفعہ 144 نافذ کی گئی، کارکنوں پر لاٹھیاں برسائی گئیں، گاڑیوں کو توڑا گیا،ظل شاہ کے قتل کو کوراپ کرنے کی کوشش نئی نہیں، ارشد شریف قتل اورعمران خان حملے کو بھی کوراپ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے لوگوں پر ظلم ہوا، گاڑیاں توڑی گئیں، آئی جی پنجاب اور محسن نقوی پی ٹی آئی کے خلاف آپریشن کی نگرانی کررہے تھے،
پنجاب حکومت کی ہدایت پر یہ آپریشن ہوا، کارکنوں کے پرس اور موبائل فون بھی چھین لیے گئے۔انہوں نے بتایا کہ ظل شاہ 1992 سے عمران خان کے ساتھ تھے، وہ پی ٹی آئی کے جسم کا ٹکڑا تھے۔انہوں نے کہا کہ مریم نواز شریف کی ایک آڈیو لیک ہوئی ہمیں یہ پتا چلا کہ ظل شاہ پولیس حراست میں تشدد سے ہلاک ہوئے،مریم نواز یہ کہہ رہی ہیں کہ اس واقعہ کو حادثے کا اینگل دینا ہے، محسن نقوی شریف خاندان کے ایک بچونگڑے کی طرح ایک پریس کانفرنس کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ظل شاہ کے جسم پر جس طرح کے تشدد کے نشانات تھے تمام بین الاقوامی ادارے اس طرح کے تشدد کی مذمت کر رہے ہیں،ڈاکٹر جاوید اکرم اج شواہد کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،وزیر صحت کا کیا کام کہ وہ پوسٹ مارٹم کے وقت وہاں جائے،ہم اس واقعہ کو نا بھولے ہیں نا بھولنے دیں گے،ظل شاہ قتل کی سی سی ٹی وی فوٹیج کیوں سامنے نہیں لائی جا رہی،اقوام متحدہ سے بھی ظل شاہ قتل کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں،چار روز ہوچکے ہیں
ویڈیوز کیوں سامنے نہیں آ رہیں، اسے ٹمپرنگ کے لئے سامنے نہیں لایا جارہا،جو ہمارے کارکن پکڑے گئے ہیں وہ بے شک پولیس کی مرضی کا بیان دی دیں ورنہ پولیس تشدد کرے گی۔فرخ حبیب نے کہا کہ جس طرح اس کیس میں ہو رہا ہے ایسے ہی ارشد شریف کیس اور وزیر آباد کیس میں کور اپ کیا گیا،شواہد کو ضائع کرنے کی کوشش کی گئی،جے آئی ٹی پر دباؤ ڈالا جاتا ہے،گیارہ ماہ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ چل رہا ہے،یہ کسی طے شدہ پروگرام کے تحت یہ کام کیا جا رہا ہے،
یہ کام وزیر اعلی نے نہیں جلاد وزیر اعلی محسن نقوی نے کروایا ہے۔قبل ازیں انہوں نے ٹوئٹ کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ نگران وزیر اعلیٰ اور آئی جی کی پریس کانفرنس نگران سرکار کے دامن پر لگے معصوم خون کے دھبے مٹانے کی ناکام کوشش ہے، سوال یہ ہے کہ ظل شاہ شہید کی موت حادثے کا نتیجہ تھی توعمران خان، حماد اظہر اور مجھ سمیت تحریک انصاف کی قیادت پر جھوٹا پرچہ کیوں درج کیا؟۔انہوں نے کہا کہ سرکار عوام کو حقائق فراہم کرنے کی بجائے گمراہ کن بیانیے تراش رہی ہے،
وزیراعلی پریس کانفرنس سے پہلے آئی جی کا تحریک انصاف کی قیادت کے خلاف درج جھوٹا مقدمہ پڑھ لیتے تو شاید کچھ عزت بچ جاتی۔انہوں نے کہا کہ پریس کانفرنس سے وزیراعلی اور آئی جی نے ثابت کر دیا کہ پنجاب جھوٹے پرچوں کی آماجگاہ ہے۔عمران خان پر حملے، ارشد شریف کو شہید، شہباز گل اور اعظم سواتی پر بدترین تشدد کرنے والوں کی طرح ظل شاہ کے قتل کا بھی پورا حساب لیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ دفعہ 144کے نفاذ اور استعمال کی پوری کہانی قوم کے سامنے ہے، تحریک انصاف کی انتخابی ریلی اور پرامن شرکا ء ہدف تھے،
پولیس کے کردار سے صوبے میں پراسیکیوشن کا پورا ڈھانچہ زمین بوس ہو کر رہ گیا۔عدالتوں کیلئے یہ مشکل تر ہوگیا ہے کہ پولیس جسے ملزم بناکر پیش کررہی ہے وہ ملزم ہے بھی یا نہیں، جھوٹے پرچوں کے علاوہ زیر حراست تشدد آئی جی کے محکمے کی پیشانی پر سیاہ دھبے کی طرح چسپاں ہے۔لاہور ہائیکورٹ کے سینئر جج کے ذریعے حقائق کی پڑتال کا اہتمام کیا جائے۔سابق وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے ٹوئٹر پر مریم نواز کی مبینہ آڈیو بھی شیئر کردی۔ عالوہ ازیں پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی صدر و سابق وزیراعلی پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے بھی مطالبہ کیا کہ
پی ٹی آئی کارکن ظل شاہ کی ہلاکت کے قصور واروں کو جوڈیشل انکوائری کروا کے پھانسی دی جائے۔انہوں نے کہا کہ ماڈل ٹاؤن سانحہ میں رانا ثنا اللہ جیسے لوگوں کو سزا ہو چکی ہوتی تو آج سانحہ زمان پارک رونما نہ ہوتا، جوڈیشل انکوائری کر کے ظل شاہ کے قتل کے قصور واروں کو پھانسی دی جائے۔انہوں نے کہا کہ آئی جی پنجاب، انتظامیہ اور پولیس ظل شاہ کی شہادت میں برابر کے قصور وار ہیں، ایسی مثال بنائی جائے تاکہ آئندہ انتظامیہ اپنے اختیارات اپنے گریبان تک رکھے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ انتظامیہ کے تمام قصور وار افراد کو کٹہرے میں لایا جائے تا کہ آئندہ کسی کو ایسی گھناؤنی حرکت کرنے کی جرت نہ ہو۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے میڈیا ایڈوائزر فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ پی ٹی آئی ورکر ظل شاہ کا ناحق خون حکمرانوں کو لے ڈوبے گا۔ظل شاہ کے قتل پر حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے،اس بہیمانہ قتل پر حکمران گونگلوں سے مٹی جھاڑنے میں مصروف ہیں،
ظل شاہ کا ناحق خون حکمرانوں کو لے ڈوبے گا۔سابق صوبائی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ امپورٹڈ حکومت کو عوامی عدالت کے کٹہرے میں اس قتل کا جواب دینا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ رہزنوں سے عوام کو کیا گلہ، یہاں تو رہبروں کی نیت میں فتور ہے۔تحریک انصاف کے رہنما حماد اظہر نے اپنی ٹویٹ میں علی بلال کی پوسٹمارٹم رپورٹ کو نگراں وزیراعلی پنجاب محسن نقوی کے جھوٹ کا ثبو ت قرار دیتے ہوئے لکھا کہ یہ اب تیسرے کور اپ کی کوشش ہے، عمران خان پر حملہ، ارشد شریف اورعلی بلال کے قتل پر غور کریں، کیسی کہانیاں بنائی گئی ہیں۔حماد اظہر نے علی بلال عرف ظل شاہ کی دعائے مغفرت کے لئے کارکنوں کو زمان پارک پہنچنے کی ہدایت کردی۔پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ بحیثیت ڈاکٹر تصدیق کرسکتی ہوں کہ علی بلال پر تشدد ہوا تھا، اگر حادثہ مان بھی لیں تو جو زخم نازک جگہوں پر آئے وہ حادثے میں نہیں آسکتے، یہ زخم لگائے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے دیکھا کہ علی بلال کو جب قیدیوں کی گاڑی میں کھینچ کر ڈالا گیا تو وہ زندہ تھا اور بالکل ٹھیک تھا۔