کراچی (این این آئی)سابق وفاقی وزیر مفتاح اسماعیل نے ملک میں معیشت کی بحالی کو مشکل قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ اللہ رحم کرے ملک پر بہت مشکل وقت ہے،پاکستان کی سیاست میں آرمی کو اثر و رسوخ بھی کم کرنا ہوگا،یہ نہیں ہونا چاہیے کہ عدالت بھی آرمی چلائے، میڈیا بھی آرمی چلائے،جب ہم کہتے ہیں کہ این ایف سی ایوارڈ کو تبدیل کرو
تو لوگ ناراض ہوجاتے ہیں کے آپ پرو-ملٹری بات کررہے ہیں لیکن موجودہ معاشی صورتحال سے نکلنے کے لیے ہمیں این ایف سی ایوارڈ کا ازسرنو جائزہ لینا پڑے گا،اٹھارویں ترمیم کے ذریعے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ہوئی، اس کا مقصد یہ تھا کہ صوبوں سے مزید نچلی سطح پر مقامی حکومتوں کو اختیارات کی منتقلی کی جائے لیکن اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ ایک سامراج کی جگہ 4 سامراج بن گئے اور پیسے اور اختیارات مزید نچلی سطح پر منتقل نہ ہوئے۔ہفتہ کوسابق وفاقی وزیر مفتاح اسماعیل نے میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کی،اس دوران ایک صحافی نے معیشت کی بحالی سے متعلق سوال کیا۔ مفتاح اسماعیل نے جواب دیا کہ معیشت بحالی بہت مشکل کام ہے، معاشی بحالی کیلئے قربانیاں دینی ہوں گی۔سابق وفاقی وزیر مفتاح اسماعیل نے روٹری کلب کراچی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 18ویں ترمیم کے تحت اختیارات صوبوں کو منتقل تو ہوئے لیکن نچلی سطح پر فنڈز نہیں پہنچتے۔انہوں نے کہا کہ وفاق کو اخراجات کم کرنے ہوں گے، صوبوں کی حکومت ٹیکس جمع نہیں کرتی، سندھ حکومت زرعی ٹیکس جمع نہیں کرتی، صوبے1 ہزار ارب روپے تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ معیشت کی صورتحال ایک سال کی غلطی نہیں، 75 برس کا حاصل ہے۔مفتاح اسماعیل نے کہا کہ 87 فیصد پاکستانیوں کو اتنی خوراک نہیں ملتی جتنی ملنی چاہیے جس ضلع میں پانی گندا ہوتا ہے وہاں بچے جسمانی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سندھ، کے پی، بلوچستان، پنجاب کے گاؤں میں رہنے والے بچے 70 برس سے بحران میں ہیں۔مفتاح اسماعیل نے کہا کہ بھارت میں اس سال 150 ارب ڈالر کی آئی ٹی ایکسپورٹس ہوں گی، بھارت میں آج آئی ٹی کے 23 کیمپس ہیں، پاکستان جس طرح چل رہا ہے ایسے نہیں چلے گا۔سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ کورونا کے بعد پاکستان کو بہت چھوٹ ملی،
اتنا ظرف نہیں کہ مسائل کے حل کیلئے بیٹھ جائیں، صوبوں کے پیسے دے کر وفاق پہلے ہی خسارے میں ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایم ایف معاہدہ توڑ دیا، پٹرول،ڈیزل سستابیچ کر آئی ایم ایف کا معاہدہ توڑا گیا، خان صاحب کی وجہ سے جیل بھی گیا، ہم آئے تو آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا، آج پھر سے آئی ایم ایف سے ڈیل ہورہی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ بیرونی قرضے چھوڑیں اب تو مقامی قرض کے چنگل میں بھی پھنسے ہوئے ہیں،
صوبے ٹیکس اس حساب سے جمع نہیں کرتے۔مفتاح اسماعیل نے کہا کہ سندھ حکومت کے پاس ٹیکس حاصل کرنے کے لیے یصرف کراچی ہے، صوبے ایک ہزار ارب روپے تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔مفتاح اسماعیل نے کہا کہ سرکاری اسکولوں کے بچے سائنس، حساب میں فیل ہو رہے ہیں، کوئی پالیسی تعلیم کے بغیرترقی نہیں دیگی۔انہوں نے کہا کہ ہمارا پارٹی بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، حکومت میں رہے ہیں جانتے ہیں سسٹم بدلے بغیر کچھ نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم کہتے ہیں کہ این ایف سی ایوارڈ کو تبدیل کرو تو لوگ ناراض ہوجاتے ہیں کے آپ پرو-ملٹری بات کررہے ہیں لیکن موجودہ معاشی صورتحال سے نکلنے کے لیے ہمیں این ایف سی ایوارڈ کا ازسرنو جائزہ لینا پڑے گا۔ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ہوئی، اس کا مقصد یہ تھا کہ صوبوں سے مزید نچلی سطح پر مقامی حکومتوں کو اختیارات کی منتقلی کی جائے۔انہوں نے کہا کہ لیکن اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ
ایک سامراج کی جگہ 4 سامراج بن گئے اور پیسے اور اختیارات مزید نچلی سطح پر منتقل نہ ہوئے۔مفتاح اسمعیل نے کہا کہ ہم 57 فیصد پیسے صوبوں کو دے دیتے ہیں، اس کے علاوہ آزاد کشمیر کو دیتے ہیں اور انسداد دہشتگردی کی مد میں خیبرپختونخوا کو بھی پیسے دیتے ہیں، یہ سب ملا کر 62/63 فیصد پیسے بن جاتے ہیں، اس کے بعد وفاق کے پاس پیسے ہی نہیں رہتے۔انہوں نے کہا کہ جب ہم کہتے ہیں کہ این ایف سی ایوارڈ کو تبدیل کرو تو لوگ ناراض ہوجاتے ہیں کہ آپ پرو-ملٹری بات کررہے ہیں،
لیکن مہنگائی کی موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کو بہرحال اخراجات کو قابو کرنا پڑے گا کیونکہ آپ ان کی استطاعت ہی نہیں رکھتے، اس صورتحال سے نکلنے کے لیے این ایف سی ایوارڈ کا ازسرنو جائزہ لینا پڑے گا۔سابق وزیرخزانہ نے واضح کیا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ صوبوں کے پیسے کم کریں، صوبوں کو آپ پیسے ضرور دیں لیکن ان کو کہیں کہ اپنے اپنے ٹیکس جمع کریں، حکومت خیبرپختونخوا صرف 30 ارب روپے ٹیکس جمع کرتی ہے، حکومت بلوچستان اتنا بھی نہیں کرتی،
حکومت سندھ صرف کراچی سے 200 ارب روپے ٹیکس جمع کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی قوم اس وقت بدترین غذائی قلت کا شکار ہے، 75 برسوں میں ہم اس قوم کو بھوک، پیاس اور جہالت سے آزاد نہ کراسکے، مہنگائی کی حالیہ لہر صرف اشرافیہ کا مسئلہ ہے کیونکہ گاوں دیہات میں رہنے والا بچہ تو 75 برس سے معاشی بحران کا شکار ہے، پہلی دفعہ آپ لوگ بھی غریب ہوئے ہیں تو آپ لوگوں کے بھی پیٹ میں درد ہونے لگا ہے۔انہوں نے کہا کہ معاشی بحران سے نکلنے کا ایک طریقہ خاندانی منصوبہ بندی ہے، پاکستان میں سالانہ 55 لاکھ بچے پیدا ہورہے ہیں،
یہاں خاندانی منصوبہ بندی پر بات کرنے پر اسلام خطرے میں آجاتا ہے، بنگلہ دیش ہم سے اسی لیے آگے بڑھا کیونکہ وہاں خواتین بھی کام کرتی ہیں اور لڑکیوں کو تعلیم و ہنر دیا جاتا ہے۔مفتاح اسمعیل نے کہا کہ ہمیں اپنی برآمدات کو جی ڈی پی کے 15 فیصد تک لے کر جانا ہوگا اور ہمارا ٹیکس ٹو جی ڈی پی بھی 15 فیصد ہونا چاہیے، تعلیم کا فروغ، اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی اور نجکاری انتہائی ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ ان تمام اقدامات کے علاوہ پاکستان کی سیاست میں آرمی کو اثر و رسوخ بھی کم کرنا ہوگا، ہم آرمی کو جی ڈی پی کا ڈھائی فیصد دیتے ہیں، یہ کوئی اتنی بڑی رقم نہیں ہے، مگر یہ نہیں ہونا چاہیے کہ عدالت بھی آرمی چلائے، میڈیا بھی آرمی چلائے۔