اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) عمران خان کی آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے بات چیت کی خواہش پوری ہونا مشکل ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔اول، اپنے پیش رو کے برعکس جنرل عاصم منیر نے حکومت سے باہر کبھی کسی سیاست دان سے ملاقات نہیں کی۔ انہوں نے خود کو سیاست اور سیاست دانوں سے دور رکھا ہے اور حلف بھی فوجی افسران سے اسی بات کا متقاضی ہے۔
دوم، ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا کوئی رکن عمران خان پر بھروسہ کرکے ان سے ایسے حالات میں ملاقات کر سکتا ہے جب وہ جانتے ہوں کہ عمران خان نے اپنے سب سے بڑے محسن اور سابق آرمی چیف جنرل (ر) باجوہ کے ساتھ کیا کیا۔روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی خبر کے مطابق عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد سے لیکر اب تک، عمران خان نے جنرل باجوہ سمیت ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر ہر طرح کا الزام عائد کیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لانے، اس پر الزامات عائد کرکے ہدف بنانے اور اپنے قتل کی سازش کا الزام بھی اسٹیبلشمنٹ پر عائد کرنے کی وجہ سے عمران خان ناقابل بھروسہ شخص بن چکے ہیں۔فوجی جرنیلوں سے بہتر یہ بات کون جانتا ہوگا کہ جنرل باجوہ نے عمران خان کو اقتدار میں لانے کیلئے کیا کچھ کیا اور اس کے بعد حکومت چلانے میں بھی مدد کی۔اپنی حکومت میں عمران خان جسے ملک کا بہترین جرنیل کہتے رہے، اسی شخص کو پی ٹی آئی چیف عمران خان نے غدار، سازشی اور سب سے بڑا دشمن قرار دیا۔
جنرل باجوہ کے آخری دنوں تک عمران خان ان پر دباؤ ڈالتے رہے کہ شہباز شریف کی زیر قیادت پی ڈی ایم حکومت کو ہٹا کر جلد الیکشن کرائے جائیں۔گزشتہ سال اگست میں عمران خان نے خبردار کیا تھا کہ ’’آپ کے پاس اپنی پالیسی پر نظرثانی کیلئے اب بھی وقت ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے عمران خان نے الزام عائد کیا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کرپٹ لوگوں کے ساتھ مل گئی ہے۔
عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین (جو اب حکومت میں بیٹھے ہیں) سے بات سے انکار کر دیا لیکن اسٹیبلشمنٹ سے وہ یہ چاہتے کہ وہ ان کی خواہشات کی تکمیل کرے۔فوج میں کمان کی تبدیلی کے بعد عمران خان کی موجودہ آرمی چیف سے توقعات وہی رہیں۔ تمام تر تنقید اور الزامات کے بعد، پی ٹی آئی نے جنرل باجوہ کے آخری دنوں تک ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطہ قائم رکھا۔
تاہم، کمان کی تبدیلی سے یہ روابط بھی ختم ہوگئے۔حال ہی میں پی ٹی آئی کے سینئر ترجمان اور سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اس نمائندے سے بات چیت میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے بعد سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پارٹی کا کسی بھی سطح پر کوئی رابطہ نہیں۔ رابطہ کرنے پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ذرائع نے بھی اس بات کی تصدیق کی تھی اور کہا تھا کہ غیر سیاسی رویے کی وجہ سے اس کا کسی سیاسی رہنما یا جماعت سے رابطہ نہیں ہے۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اپنی توجہ خالصتاً پیشہ ورانہ امور پر مرکوز رکھی ہوئی ہے، آئی ایس آئی کے وہ سینئر افسران بھی اب کسی طرح کی بات چیت کیلئے تیار نہیں جو ماضی میں پی ٹی آئی والوں سے رابطے میں تھے۔ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ایک سابق سینئر رکن نے حال ہی میں بتایا تھا کہ اب صرف میجر لیول کا ایک افسر ہی پی ٹی آئی والوں کی فون کالز پر مامور ہے۔
تاہم، موجودہ اسٹیبلشمنٹ کے ذرائع کا اصرار تھا کہ آئی ایس آئی والوں کو کسی بھی رہنما یا سیاسی جماعت سے رابطوں سے روک دیا گیا ہے۔اُس وقت فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کا یہ دعویٰ سننے میں تو اچھا لگتا ہے کہ وہ غیر سیاسی ہے اور کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں، لیکن حقیقت میں وہ نیوٹرل نہیں ہے۔اس اخبار میں عمران خان کے قریبی ساتھی ذریعے کے حوالے سے یہ خبر بھی شائع ہوئی تھی کہ صدر علوی موجودہ آرمی چیف اور عمران خان کے درمیان رابطے کی کوشش کر رہے تھے لیکن ایسا ہو نہیں پایا۔ تاہم، آزاد ذرائع سے اس بات کی تصدیق نہیں ہو پائی۔