اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) گزشتہ سال جولائی میں نواز شریف کی خصوصی درخواست پر چیئرمین نیب بننے والے آفتاب سلطان نے سات ماہ بعد منگل کو وزیراعظم شہباز شریف کی درخواست پر عہدے سے استعفیٰ دیدیا اور بظاہر اس کی وجہ یہ تھی کہ سیاسی مخالفین کیخلاف کارروائی کیلئے وہ حکومت کی بات ماننے کو تیار نہیں تھے۔وزیراعظم بننے کے فوراً بعد شہباز شریف نے آفتاب سلطان سے ملاقات کرکے انہیں سرکاری عہدہ دینے کی خواہش ظاہر کی لیکن آفتاب سلطان نے انکار کر دیا۔ انہوں نے نواز شریف کے کہنے پر شہباز شریف سے ملاقات کی۔ وہ نواز شریف کے تحت ڈی جی آئی بی کے طور پر کام کر چکے تھے۔
روزنامہ جنگ میں عمر چیمہ کی شائع خبر کے مطابق صورتحال سے آگاہ ذرائع کہتے ہیں کہ آفتاب نے چیئرمین نیب کا عہدہ نواز شریف کے اصرار پر صرف اس شرط پر قبول کیا کہ وہ اپنی آزادی پر کوئی سمجھوتا کریں گے اور نہ ہی حکومت کو خوش کرنے کیلئے کسی کی توقعات کے مطابق کام کریں گے۔آفتاب سلطان کا استعفیٰ قبول کیا جا چکا ہے۔ اب ان کی جگہ پر کوئی نیا چیئرمین لانے کیلئے حکومت کے پاس تین نام ہیں جن میں سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن، محتسب پنجاب میجر جنرل (ر) اعظم سلیمان اور سابق سیکریٹری ایوی ایشن عرفان الٰہی شامل ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ جو بھی اس عہدے کیلئے منتخب ہوا اسے حکمران اتحاد اور اسٹیبلشمنٹ کا اعتماد حاصل ہوگا۔اعظم اور عرفان دونوں کا تعلق فوج سے ہے۔ ایک ریٹائرڈ میجر جبکہ دوسرے ریٹائرڈ اسکوارڈن لیڈر ہیں۔ ممکن ہے کہ بشیر میمن کے نام پر زرداری حامی نہ بھریں کیونکہ ماضی میں دونوں کے درمیان تعلقات خراب رہے ہیں۔
جہاں تک آفتاب سلطان کے استعفے کا تعلق ہے تو ایک سرکاری عہدیدار نےبتایا ہے کہ آفتاب سے وزیراعظم نے کہا تھا کہ سیاسی مخالفین کیخلاف تحقیقات میں تیزی لائیں کیونکہ یہ کیسز من گھڑت نہیں ہیں۔ آفتاب کا کہنا تھا کہ کام جاری ہے اور اس میں کچھ مہینے لگیں گے لیکن حکومت کو نتائج حاصل کرنے کی جلدی تھی اور چاہتی تھی کہ الیکشن کے قریب آتے ہی مخالفین کو جیلوں میں ڈال دیا جائے۔آفتاب کا کہنا تھا کہ طریقہ کار پر عمل کیے بغیر وہ ایسا نہیں کر سکتے، اسی بات سے حکومت ناراض ہوگئی۔ اس پر آفتاب نے مستعفی ہونے کی پیشکش کی جسے فوراً قبول کر لیا گیا۔ نیب کے ایک ذریعے نے مذکورہ بالا وجہ سے اتفاق کیا۔
ایسے کئی کیسز ہیں اور تقریباً سبھی درست ہیں لیکن آفتاب ایسے شخص نہیں جو اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی کو خوش کریں۔ جو کیسز نتائج کیلئے تیار ہیں ان میں توشہ خان، بلین ٹری سونامی کیس، پشاور بی آر ٹی کیس، القادر یونیورسٹی کیس اور فرح گوگی، عثمان بزدار اور علی امین گنڈا پور کیس شامل ہیں۔
نیب کے ترمیمی آرڈیننس کے مطابق، تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے نیب کسی کو گرفتار نہیں کر سکتا۔ ایک اور کیس جس میں نیب نے حکومت کی خواہش پوری نہیں کی وہ عمران خان کیخلاف ہیلی کاپٹر ریفرنس کیس ہے۔ اگرچہ اسٹیبلشمنٹ کے کچھ حلقے چاہتے تھے کہ نیب اس کیس میں چالان پیش کرے، لیکن آفتاب نے مخالفت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے کے پی حکومت کا ہیلی کاپٹر غیر مجاز انداز سے استعمال کیا ہے ان سے پیسہ وصول کیا جائے نہ کہ ان کیخلاف فوجداری کارروائی کی جائے۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کیخلاف تحقیقات شروع کرنے کی خواہش بھی آفتاب سلطان نے پوری نہیں کی کیونکہ ان کی رائے تھی کہ نیب کے اصولوں کے مطابق یہ کیس میرٹ پر پورا نہیں اترتا۔
سابقہ اسٹیبلشمنٹ بھی نیب چیئرمین سے خائف تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ صابر مٹھو کیخلاف تحقیقات بند کی جائیں۔ اسی طرح سابق آرمی چیف کے بھائی کامران کیانی کا معاملہ بھی خصوصی اہمیت کا حامل رہا۔ آفتاب نے یہ کیس ایک مدعی کی درخواست پر نیب راولپنڈی کو بھیجا کیونکہ انہوں نے ڈی جی نیب لاہور پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ اس اقدام کو ریورس کرنے کی کوششیں ناکام رہیں۔
کچھ عناصر چاہتے تھے کہ سابق چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ر) مزمل حسین کیخلاف کیس کیا جائے اور اس کا نتیجہ ان عناصر کی خواہشات کے مطابق آئے لیکن آفتاب نے ایسا نہیں کیا۔