لاہور(این این آئی)پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے رجیم چینج کا خود اعتراف کیا ہے، ان کے خلاف فوج کے اندر انکوائری ہونی چاہیے،اس وقت مسلم لیگ(ن)، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ سب ایک طرف کھڑے ہیں اور ہماری حکومت بھی ان سب نے مل کر گرائی تھی،
جنرل باجوہ نے ایک صحافی کو بیان دیا ہے کہ ہم نے حکومت ان وجوہات پر گرائی تھیں تو وہ رجیم چینج کا مان گئے،مل کر حکومت گرائی تھی اور اس کے بعد سب اکٹھے رہے۔امریکی نشریاتی ادارے کو انٹر ویو میں عمران خان نے کہا کہ ہم نے 36 ضمنی انتخابات میں سے 29 جیتے ہیں اور ان سب کو ہرایا، لگ رہا ہے اب جو انتخابات ہوں گے یہ سب مل کر ہمارے خلاف کھڑے ہوں گے۔سیاسی اہداف کے حصول میں ناکامی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ اس وقت ہماری ایک ہی کوشش تھی کہ صاف اور شفاف الیکشن، یہاں صاف اور شفاف الیکشن نہیں ہوسکتے لیکن الیکشن ہوسکتے ہیں۔الیکشن کمیشن پرجانب داری کا الزام عائد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن بھی ان کے ساتھ کھڑا ہے، اسٹیبلشمنٹ اور پارٹیز ان کے ساتھ کھڑی ہیں۔پاکستان کی تاریخ میں اتنی جانبدار نگران حکومتیں نہیں بنی، الیکشن میں دھاندلی کے لیے پولیس اور نیچے سارا عملہ لے کر آئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب دو صوبوں میں جو کہ 66 فیصد پاکستان ہے، یہاں الیکشن ہوگئے تو جنرل الیکشن کرنے پڑیں گے۔اسٹیبلشمنٹ پر اعتماد کے حوالے سے عمران خان نے کہا کہ ابھی تو جنرل باجوہ کی پالیسیاں چل رہی ہیں اور جنرل باجوہ نے خود کہہ دیا ہے انہوں نے حکومت گرائی تھی کیونکہ وہ جو بھی کہتے تھے کہ ملک کو خطرہ ہے، اس کے بعد جو حکومت لے کر آئے ہیں، اس نے ملک کی معیشت تباہ کردی بلکہ ملک کو ہر طرف سے نیچے چلا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ان کے اوپر فوج کے اندر انکوائری ہونی چاہیے کہ ان کے اپنے بیان جو انہوں نے دئیے ہیں اور بڑے فخر اور بڑے تکبر سے کہ میں نے فیصلہ کیا ملک کے یہ حالات تھے جیسا کہ وہ معیشت کے ماہر ہوں۔اس پر اندر سوچنا چاہیے، اس سے عوام اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان فاصلے بڑھ گئے، جو ساری قوم سمجھتی تھی کہ جنرل باجوہ کی وجہ سے حکومت گری تھی تو اب انہوں نے خود تسلیم کرلیا
اور اس چیز سے پردہ ہی ہٹا دیا۔انہوں نے کہا کہ لوگوں کو شک تھا بلکہ شک بھی نہیں اور لوگوں کو واضح ہوگیا تھا کہ آرمی چیف نے حکومت نے گرائی ہے۔دہشتگردی کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ میں نے 2021 کی گرمیوں سے جنرل باجوہ کو خبردار کرتا گیا کہ افغانستان سے امریکی جائیں گے تو پاکستان پر اس کا اثر پڑے گا اور ہمیں تیاری کرنی چاہیے۔میں سمجھتا ہوں ہم بچ گئے، اس سے بھی زیادہ دہشت گردی ہونی تھی اگر افغانستان کی فوج ہتھیار نہ ڈالتی اور خانہ جنگی ہوجاتی تو پاکستان پر اس کے اور اثرات ہونے تھے۔
انہوں نے کہا کہ سکیورٹی کا کام جنرل باجوہ کا تھا اور ان کو میں کہتا رہا اور اپنی کابینہ کو بھی بتایا تھا۔ہم نے میٹنگز بھی کی اور ہماری سوچ تھی کہ جب طالبان قبضہ کریں گے تو ٹی ٹی پی پاکستان آئے گی کیونکہ اس نے پاکستان آنا تھا جو اہل خانہ کے ساتھ مجموعی طور پر 30 سے 40 ہزار لوگ تھے۔انہوں نے کہا کہ جب ہم کہتے تھے ایک پیج پر ہیں تو کئی چیزوں پر حکومت موثر ہوجاتی ہے کیونکہ فوج ایک منظم ادارہ ہے۔عمران خان سے سوال کیا گیا کہ اگر آپ گرفتار ہوتے ہیں تو کیا اسی جیل میں رہنا پسند کریں گے جہاں نواز شریف کو رکھا گیا تھا تو انہوں نے کہا کہ گرفتاری پر مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، جیل جانے سے مجھے کوئی خوف نہیں ہے۔