اسلام آباد( ان لائن)عمران خان دور حکومت میں براڈشیٹ اور غیر ملکی وکلاء کو 4 ارب 68 کروڑ روپے سے زائد کی ادائیگی مشکوک قرار دے دی گئی ہے نیب نے ان ادائیگیوں سے متعلق ریکارڈ ہی فراہم کرنے سے انکار کردیا آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کی روشنی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اس سارے معاملے کی جامع تحقیقات کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی
میں پیش کی جانے والی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ میسرز براڈشیٹ اور غیر ملکی وکلاء کو 4 ارب 68 کروڑ روپے سے زائد کی ادائیگی مشکوک ہے،نوازشریف و دیگر کے غیر ملکی اثاثوں کا پتہ چلانے کیلئے براڈشیٹ خدمات حاصل کی گئی تھیں اور اس فرم کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ کیا گیا تھا بعد میں حکومت پاکستان اس معاہدے پر عمل نہ کرسکی تو میسرز براڈشیٹ نے لندن کی عدالت میں کیس دائر کردیا تھا جس کا فیصلہ براڈشیٹ کے حق میں ہوا اور نیب کو بھاری رقوم ادا کرنا پڑیں رپورٹ کے مطابق تمام ادائیگیاں تحریک انصاف کی حکومت میں وزارت خارجہ کے ذریعے کی گئی نیب نے دو مراحل میں غیر ملکی وکلاء اور براڈشیٹ کو ادائیگی کی پہلے مرحلے میں براڈشیٹ کے خلاف کیس لڑنے کیلیے غیر ملکی وکلاء کو 27 کروڑ 46 لاکھ سے زائد ادا کیے گیے۔مگر نیب براڈشیٹ اور غیر ملکی وکلاء کو کی جانے والی ادائیگیوں کا ریکارڈ آڈٹ حکام کو فراہم کرنے میں ناکام رہا جس پر آڈیٹر جنرل نے ان ادائیگیوں پر سنگین نوعیت کے سوالات اٹھا دئیے کہ بتایا جائے کہ غیر ملکی وکلاء کیسے رکھے گئے؟
ادائیگیوں کی انوائس کیسے جاری ہوئی۔اصل میں وکلاء کو کتنی ادائیگی کی گئی اس بارے بھی نیب ریکارڈ دینے میں ناکام رہا دوسرے مرحلے میں میسرز براڈشیٹ کو نیب نے 4 ارب 41 کروڑ روپے سے زائد کی ادائیگی کی اس کو بھی آڈٹ حکام نے ریکارڈ کی عدم موجودگی میں مشکوک قرار دیا اور کہا کہ نیب کے ان افسران کے خلاف کاروائی کی جائے جنھوں نے ابھی تک ریکارڈ فراہم نہیں کیا نیب حکام کاموقف ہے کہ براڈ شیٹ اور غیر ملکی وکلاء کوتمام ادائیگیاں اس وقت کی وفاقی کابینہ اور ای سی سی کی منظوری سے وزارت خارجہ کے ذریعے کی گئی تھیں تاہم آڈیٹر جنرل نے نیب کا جواب ناقابل قبول قرار دے دیا اب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اس معاملے کی تہہ تک پہنچے گی۔