لاہور(این این آئی)پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی کی فائنڈنگ سے واضح ہو گیا ہے کہ حملہ آور ایک نہیں بلکہ تین تھے، رانا ثنا اللہ اور شہباز شریف کیلئے قتل کرانا کوئی بڑی بات نہیں لیکن میرے کیس میں یہ کریمینلز ایسا نہیں کر سکتے،شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ سے زیادہ طاقتور لوگ ہیں
جو ان کو کور اپ دینے میں شامل ہیں،مجھے اپنے ملک کی فکر ہے،وہ لوگ جن کو ہم سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ملک کی حفاظت کرنی ہے جو محافظ ہیں وہ اس میں کیسے شامل ہو گئے ان کے بغیر یہ ہونا نہیں تھا؟، جس طرح ایف آئی آر کے اندراج اور جے آئی ٹی کی تحقیقات میں رکاوٹیں ڈالی گئی ہیں مجھے ابھی تک امید نہیں کہ انصاف ملے گا، مجھے انصاف تب ہی مل سکتا ہے جب چیف جسٹس آف پاکستان اس کیس کی تحقیقات کے پیچھے ہوں گے،جو گولی معظم کو لگی اصل میں نوید کو مارنا تھا لیکن وہ گولی معظم کو جا لگی، میرے کیس میں بھی لیاقت علی خان والا واقعہ بنانا تھا۔ اپنی رہائشگاہ زمان پارک میں ویڈیو لنک کے ذریعے پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ جب تک ہمارے ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں آتی، جنگل کا قانون ختم نہیں کرتے جو مرضی کر لیں ہمارے ملک کا کوئی مستقبل نہیں۔ہم کیسے وزیر آباد پہنچے اور وہاں کیا ہوا اس پر چند سوال ہیں اور مجھے ان کے جوابات پتہ ہیں لیکن میں قوم کے سامنے یہ رکھنا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلے رجیم چینچ کی سازش ہوئی، مجھے پتہ ہے اس سازش میں کون کون ملوث تھا، کس نے کیا منصوبہ بندی کی، کیا ان کی سوچ تھی، کیسے انہوں نے پیسہ چلایا، ایک آدمی نے حکومت گرانے کا فیصلہ کیا اور اس نے جب حکم دیا توہمارے اتحادی الگ ہو گئے، ہمارے لوگوں سے امریکی سفارتخانے میں بلا بلا کر بات کی گئی اور وہ کیسے لوٹا ہوا اور ان کو پیسے ملے اور حکومت گر گئی وہ عوام سب سمجھ گئی ہے۔
دس اپریل کو جو ہوا وہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستان کے لاکھوں لوگ حکومت گرانے کے خلاف سڑکوں پر آئے اور انہوں نے امپورٹڈ حکومت کو مسترد کر دیا، رجیم چینچ کے پیچھے جوماسٹر تھا وہ کچھ اور سمجھ رہا تھا لیکن اس کے برعکس ہوا، پہلے تو حکومتیں گرانے پر مٹھائیاں بانٹی جاتی تھیں لیکن اس بار باشعور سڑکوں پر آ گئی۔
جرائم پیشہ لوگوں کو مسلط کرنے پر لوگ ان کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ قوم نے واضح کہہ دیا کہ ہمیں بھیڑ بکریوں کی طرح نہ رکھو، ہم اس کو قبول نہیں کرتے، ہم انسان ہیں، ہم وہ لوگ ہیں جن میں شعور آ چکا ہے، اب سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اس کو آپ بند نہیں کر سکتے۔ جنہوں نے یہ رجیم چینچ کی وہ یہ سوچ رہے تھے کہ یہ تھوڑی کے لئے چلے گا اور ختم ہو جائے گالیکن ایسا نہیں ہوا۔
اس کے بعد ہمارے اوپر ظلم ہوا، بجائے غلطی کر دی عقل یہ کہتی ہے کہ اس سے پیچھے ہٹ جاؤ انتخابات کرا دو لیکن پورا زور لگا کر ہمیں روکا گیا۔ قوم نے بار بار پیغام دیا کہ ہم آپ ساتھ نہیں ہیں، ضمنی انتخابات ہوئے اس کے نتائج سامنے آ گئے۔کبھی یہ نہیں ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ ساری جماعتوں کے ساتھ ایک پیج پرہو اور جو ایک پارٹی جو حکومت سے باہر وہ 75فیصد انتخابات جیت جائے،
قوم نے واضح پیغام دیدیا،بجائے اس کے قوم کیا کہہ رہی ہے اس کی آواز سننے کی بجائے طاقت کا استعمال کیا گیا، تشدد کیا گیا، میرے اوپر پچاس،ساٹھ کیسز بنا دئیے گئے، مجھے نا اہل کرنے کے لئے کیس کئے گئے۔پھر بھی عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے چوروں کے ساتھ کھڑے ہو کہ کسی نہ کسی طرح عمران خان کو راستے سے ہٹایا جائے،ہم نے ہر حربہ دیکھا ہے جو ہمارے خلاف استعمال کیا گیا۔
پچیس مئی کے پر امن احتجاج کو روکنے کے لئے تشدد کیا گیا،دوسرے ضمنی انتخابات ہوئے اس میں بھی نتائج دیکھ لئے۔ اس کے بعد مجھے مارنے کی منصوبہ بندی کی گئی، میں نے چار لوگوں کے نام کی ویڈیوز بنا کر باہر بھجوا دی ہے کہ اگر مجھے کچھ ہو جائے تو وہ سامنے آ جائے گی، انہیں پتہ چلا کہ اب اگر قتل کرتے ہیں توان پر آ جائے گا اور وہ نیا منصوبہ بنایا گیا کہ مجھے سلمان تاثیر کی طرز پر قتل کر دیا جائے کہ دینی انتہا پسند نے جوش میں آکر عمران خان کو قتل کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ چوبیس اگست کو ایک صحافی ایک ویڈیو لے کر آتا ہے،میرا یہ سوال ہے اس کے پیچھے کون تھا، مجھے پتہ وہ کون تھے جنہوں نے یہ ویڈیو بنائی کہ عمران خان نے توہین رسالت کر دی توہین مذہب کر دیا۔ اس کے بعد وہ ویڈیو آگے نکلتی ہے، اس پر میاں جاوید لطیف،مریم نواز، رانا ثنا اللہ پریس کانفرنس کرتے ہیں،پھر خواجہ آصف کو دین کی فکر لا حق ہو جاتی ہے اور وہ بھی پریس کانفرنس کر دیتا ہے اور لوگوں کو اشتعال دلایا جاتا ہے، اس سے پہلے پی ٹی وی کو چار دن حکم ملتا ہے کہ عمران خان کے خلاف پوری مہم چلائیں کہ اس نے دین کی توہین کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ تیس سال سے حکمران ہیں انہوں نے پاکستان سے باہر کبھی دین کا نام لیا ہے،کبھی ان کو دین کی فکر ہوئی ہے، امریکہ اور مغرب کو کہتے ہیں ہماری مدد کر و، ہم تو لبرل ہیں،ہم نہیں ہیں تو انتہا پسند اور بنیاد پرست پاکستان میں چھا جائیں گے۔ میں ووٹ لینے کے لئے یہ نہیں کر رہا تھا میرا عقیدہ اور ایمان ہے،مسلمانوں سے جوزیادتیاں ہوتی ہیں، اسلامو فوبیا، نبی کریم ﷺ کی شان میں جو گستاخی کی جاتی ہے میں واحد وزیراعظم تھا جس نے ہر انٹر نیشنل فورم پر بات کی، یہ میں کسی کو خوش کرنے کے لئے یہ باتیں نہیں کر رہا تھا بلکہ یہ میرے ایمان اور عقیدے کا حصہ ہے،
اس آدمی پر الزام لگایا جارہا ہے کہ وہ دین کی توہین کر رہا ہے۔ رانا ثنا اللہ بدمعاش ہے، میرے خلاف سب کچھ اسکرپٹ کے مطابق چل رہا تھا۔میں ساڑھے تین سال حکومت میں رہا ہوں، میرے رابطے ہو گئے تھے، مجھے پتہ چلا کہ آپ کو دین کے نام پر قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے، میں نے جلسوں میں اس حوالے سے بات کی کہ مجھے اس طرح قتل کرنے کا منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیرآباد میں جس نے گولیاں چلائیں اس نے پسٹل سے ریپڈ فائر کیا، اگر وہ تربیت یافتہ نہ ہوتا تو یہ نا ممکن ہے کہ وہ فائر کرتا اور وہ اوپر کی طرف نہ جاتا، پیچھے سے ہمارا ہیرو ابتسام آ گیا،اللہ نے مجھے بچانا تھا،
اگر وہ اس کا ہاتھ دوسری طرف نہ کرتا تو کرتا گولیاں کنٹینر پر لگتیں، حملہ آور وہ تربیت یافتہ آدمی تھا، میں جب گر رہا تھا میرے اوپر سے گولیاں گزر رہی ہیں، میں نے اور بھی برسٹ کی آواز سنی،میں کہتا رہ گیا اوپر سے گولیاں آئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں ہسپتال پہنچتا نہیں ہوں کہ ملزم کا ریکارڈ ڈبیان آ جاتا ہے کہ میں اکیلا تھا، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی نے اس کو پٹی پڑھائی ہوئی ہے، اسے یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ میں اکیلا تھا۔ میں ہسپتال نہیں پہنچا تو کون لوگ تھے جو ملزم کا بیان جاری کر کے ویڈیو سلیکٹڈ صحافیوں کو بھجواتے ہیں جو ہمارے مخالف سمجھے جاتے ہیں
اور وہ اس پر ٹوئٹ کرتے ہیں۔ ڈی پی او گجرات اپنے فون سے اس کا بیان ریکارڈ کرتا ہے، پھر یہ اس کے فون سے وہ آگے جاتی ہے اوررکتی نہیں ہے۔ ڈی پی او تو پنجاب کا ملازم ہے لیکن ہمارا اپنا ڈی پی او ریکارڈ کرا کے کہاں بھجواتا ہے،سی سی ٹی وی میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ اپنا موبائل فون دے رہاہے کہ ملزم کی ویڈیو ریکارڈ کریں۔ میں نے تین نام دئیے اس میں کون لوگ ملوث ہیں، مجھے گولیاں لگی ہیں، میرا یہ حق ہے مجھے جن پر مجھے شک ہے ان سے تحقیقات شروع ہوں۔ پنجاب میں ہماری حکومت ہے اور میں پارٹی کا سربراہ ہوں میں اپنی ایف آئی آر درج نہیں کر اسکا،
کون روک رہا تھا کون تفتیش سے ڈر ارہا تھا کہ جو نام لئے ہیں ان سے تفتیش نہیں ہونی چاہیے۔ میں پارٹی کا سربراہ سابق وزیر اعظم ہوں اورہماری پنجاب میں حکومت ہے لیکن میں ایف آئی آر درج نہیں کر اسکا۔ کون اتنی بڑی طاقت تھی جو ہماری حکومت سے بڑی تھی یہ سب سے بڑا سوال ہے، جو ایف آئی آر درج کرائی گئی اس میں ایک شوٹر تھالیکن جے آئی ٹی کی فائنڈنگ کچھ اور کہتی ہیں۔ جب جے آئی ٹی نے ڈی پی او گجرات کو کہا آپ کے موبائل فون کی ضرورت ہے لیکن اس نے فون دینے سے انکار کر دیااورواضح کہتا ہے میں تعاون نہیں کروں گا اور جے آئی ٹی کے بلانے پر بھی نہیں آتا،
اب عدالت کے ذریعے اسے جے آئی ٹی میں بلایا جائے گا۔ آٹھ گھنٹے کے لئے ملزم کو سی ٹی ڈی اٹھا لیتی ہے اور رات بارہ بجے ایک اور ویڈیو ریلیز کرتی ہے، اس کا کیا کام تھا،ویڈیو ریلیز کی جاتی ہے اوراس کی بیک گراؤنڈ تبدیل کر دی جاتی ہے۔ جب جے آئی ٹی میں سی ٹی ڈی کے لوگوں کو بلایا جاتا ہے تو وہ بھی آنے سے انکار کر دیتے ہیں اور تعاون نہیں کر،کیا وجہ ہے کہ ہمارے نیچے افسران ہیں اوروہ تعاون نہیں کرتے، کون ان کو روک رہا تھا؟،کوئی زیادہ طاقتور فورس تھی جو روک رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اب جے آئی ٹی کی فائنڈنگ آتی ہے تین شوٹرز تھے،ایک نوید دوسرا اوپر سے گولیاں چلا رہا تھا،
دس خول نیچے ملے، دو اور نیچے ملے جو مختلف بندوق سے چلائے ہوئے تھے، ایک عمارت کی چھت سے خول ملے ہیں۔ ہمارے گارڈز کے اسلحے کا فرانزک ہوا ہے، جو گارڈ قریب تھا اس سے چھ گولیاں نکلی ہیں۔معظم شہید ہوا جب وہ نوید کے سامنے آتا ہے تو معظم کو لگتی ہے اسے کہیں دور سے آ کر گولی لگتی ہے، اصل میں نوید کو مارنا تھا لیکن وہ گولی معظم کو جا لگی، لیاقت علی خان والا واقعہ بنانا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو سابق سربراہ کو قتل کرنے کی سازش کی گئی، وفاق کو چھوڑیں جو ہمارے نیچے نیچے کام کر رہے ہیں وہ مدد کرنے کو تیار نہیں، مجھے پتہ ہے کہ کون کون ملوث ہے، میں اپنی قوم کیلئے سوال چھوڑنے لگا ہوں،
قوم خود سوچ لے اگر ملک کے سابق وزیر اعظم سے ہو سکتا ہے تو باقی لوگوں کی کیا حیثیت ہے۔ جو زیادہ طاقتور ہے ان کا قانون چلتا ہے، جنگل کا قانون ہے۔ ویڈیو کس نے بنائی، عمران خان نے توہین مذہب کی، مجھے پتہ ہے وہ کون سا ادارہ تھا۔ جب جے آئی ٹی بلا کر سوال پوچھے گی ہم بتا سکیں گے وہ کون ہیں، میں اپنی ایف آئی کیوں درج نہ کر اسکا، ڈی پی او کو کس نے کہا تھاکہ ان صحافیوں کو ویڈیو بھجوائیں،مجھے پتہ ہے وہ کون تھا،کس نے سی ٹی ڈی کو کہا کہ وہ دوسری ویڈیو بنائیں وہ کون تھا وہ پنجاب حکومت تو نہیں تھی، بیک گراؤنڈ تبدیل کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ انہوں نے کہاکہ جے آئی ٹی کے اندر سے تحقیقات کے نکات لیک ہوئے اور ہمارے مخالف اینکر کو یہ چیزیں بتائی گئیں،
جے آئی ٹی کی تحقیقات کو لیک کرنا جرم ہے، میں جو چیزیں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں یہ عدالت میں جا چکی ہیں،پولی گرافک ٹیسٹ میں بھی سامنے آیا کہ ملزم نوید جھوٹ بول رہا ہے۔ عمران خان نے کہا کہ ملک میں جو طاقت رکھتے یں ان سے سوال پوچھنا چاہتا ہوں جو اس کے پیچھے تھے،رانا ثنا اللہ اور شہباز شریف کے لئے قتل کرانا کوئی بڑا کام نہیں، شہباز شریف پر ماورائے عدالت قتل کی رپورٹ ہے جو عدالت میں جمع ہوئی۔ مجھے اپنے ملک کی فکر ہے کہ وہ لوگ جن کو ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کی حفاظت کرنی ہے جو اس جو ہمارے محافظ ہیں وہ اس میں کیسے شامل ہو گئے،ان کے بغیر یہ ہونا نہیں تھا، دو کریمینلز اس کو کور اپ نہیں کر سکتے، ان سے زیادہ طاقتور لوگ کر سکتے ہیں وہی کور اپ میں شامل ہیں، وہ لوگ ہیں جن کو ہم سمجھتے ہیں وہ ملک کی حفاظت کریں گے،سوال پوچھتاہوں کیا میں وہ آدمی ہوں کہ کوئی کہہ سکتا ہے کہ میں کسی بیرونی سازش کا حصہ ہوں، میں نے ملک کا پیسہ کبھی باہر رکھا ہوا،
میرے باہر اکاؤنٹس ہیں ملک پر جس طرح مسلط کئے گئے چوروں کا ہے اور ابھی بھی چوری کر کے لے کر جارہے ہیں۔ انہوں نے میں ملک میں وفاق کی علامت جماعت کا سربراہ ہوں، قوموں کو سیاسی جماعتیں اکٹھا رکھتی ہیں، میں واحد وفاقی جماعت کا سربراہ ہوں جو فیڈریشن کی علامت ہے، ہمارا ووٹ بینک ہے جو ملک کو اکٹھا رکھ سکتا ہے یہ کس کے لئے کیا جاہا ہے، کیا پاکستان کی بہتری کے لئے کیا گیا؟۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے یہ کیسا مائنڈ سیٹ ہے جو یہ سوچ سکتا ہے،اپنے ملک کو نقصان پہنچا سکتا ہے، یہ ملک دشمنوں کا تو پلان ہو سکتا ہے،سیاسی جماعتوں کو کمزور کرو وہ یہ کیسے سوچ سکتے ہیں، یہ دو تین لوگوں کی سازش تھی۔ ہماری فوج ہر روز ہمارے لئے قربانیاں دے رہی ہے، یہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں نہ دیتے آج ہم اس ملک میں آرام سے نہ رہ رہے ہوتے۔ انہوں نے کہاکہ جو حالات و واقعات ہیں، جس طرح رکاوٹیں آرہی ہیں مجھے تو انصاف کی توقع نہیں، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے انصاف کی ایک جگہ سے توقع ہے، چیف جسٹس اس کیس کی تحقیقات کے پیچھے ہوں تو تب ہی انصاف مل سکتا ہے۔