اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک/این این آئی )لاہور ہائی کورٹ نے گورنر کا ڈی نوٹیفائی کا نوٹیفکیشن معطل کر کے چودھری پرویز الہٰی کو دوبارہ وزارت اعلیٰ کے منصب پر بحال کر دیا ہے ۔ تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں چودھری پرویز الہٰی کو وزارت اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی ۔نجی ٹی وی کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ق کے رہنما و چودھری پرویز الہٰی نے
عدالت کو یقین دہانی کروا دی ہےکہ مجھے بحال کیا گیا تو میں اسمبلی نہیں توڑوں گا ۔ علی ظفر نے پرویز الہی کی انڈٹیکنگ پڑھ کر سنائی ہے ۔ اگر وزارت اعلیٰ پر بحال کیا گیا تو میں اسمبلی نہیں توڑنے کی ایڈوائس نہیں دوں گا ۔قبل ازیں لاہور ہائی کورٹ میں مسلم لیگ (ق) کے رہنما چودھری پرویز الٰہی کی جانب سے وزارت اعلیٰ کے عہدے سے برطرف کرنے کے گورنر پنجاب بلیغ الرحمن کے ڈی نوٹیفکیشن کے احکامات کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر گورنر نے اعتماد کےووٹ کا کہا ہے تو اس پر عمل تو ہونا چاہیے۔عدالت عالیہ میں جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ نے درخواست پر سماعت کی، بینچ میں جسٹس فاروق حیدر کی جگہ جسٹس عاصم حفیظ کو شامل کیا گیا، بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس چوہدری محمد اقبال، جسٹس مزمل اختر شبیر، طارق سلیم شیخ شامل تھے۔پرویز الٰہی نے خود کو گورنر پنجاب بلیغ الرحمن کی جانب سے وزیر اعلی پنجاب کے عہدے سے ڈی نوٹی فائی کرنے کا اقدام اپنے وکلاء بیرسٹر سید علی ظفر، عامر سعید راں ایڈووکیٹ، آدم سعید راں ایڈووکیٹ ا ور عماد حسین چانڈیو کی وساطت سے لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا۔چودھری پرویز الٰہی کی جانب سے 9صفحات پر مشتمل پٹیشن آئین کے آرٹیکل 199کے تحت دائرکی گئی، جس میں گورنر اور اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان، حکومت پنجاب اور چیف سیکرٹری پنجاب کو فریق بنایا گیا۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ
گورنر نے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے وزیراعلیٰ کو خط لکھا ہی نہیں، خط اسپیکر کو لکھا گیا، وزیراعلی کو نہیں۔ایک اجلاس کے دوران گورنر دوسرا اجلاس طلب نہیں کر سکتے۔ گورنر کو اختیار ہی نہیں کہ وہ غیر آینی طور پر وزیر اعلی کو ڈی نوٹیفائی کر سکیں۔پرویز الٰہی کی جانب سے پٹیشن میں کہا گیا کہ گورنر پنجاب نے آئین کے آرٹیکل 130سب سیکشن 7کی غلط تشریح کی۔
گورنر پنجاب نے اختیارات کاغلط استعمال کرتے ہوئے وزیراعلی کو ڈی نوٹیفائی کیا۔پٹیشن کے مطابق گورنر،وزیراعلی کو تعینات کرنے کی اتھارٹی نہیں،اسی لیے وزیراعلی کو ہٹانے کا بھی اختیار نہیں رکھتا۔ گورنر نے اسپیکر کیساتھ تنازع میں وزیراعلی کو غیرقانونی طور پرہٹایا۔ جب تک اسپیکر اعتماد کیووٹ کے لیے اجلاس نہیں بلاتا تو بطور وزیر اعلی کیسے اعتماد کا ووٹ حاصل کرتا۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت گورنر پنجاب کے نوٹیفیکیشن کو کالعدم قرار دے۔وکلاء کی استدعا پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے پرویز الٰہی کی درخواست پر سماعت کے لیے جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں لارجر بینچ تشکیل دیدیا۔بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس چودھری محمد اقبال، جسٹس طارق سلیم شیخ، جسٹس فاروق حیدر اور جسٹس مزمل اختر شبیر شامل تھے تاہم بینچ اس وقت تحلیل ہوگیا تھا
جب جسٹس فاروق حیدر نے درخواست پر سماعت سے معذرت کرلی، بینچ کے سربراہ جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا تھا کہ جسٹس فاروق حیدر درخواست گزار کے وکیل رہ چکے ہیں، ہم نے کیس کی فائل نئے بینچ کے لیے چیف جسٹس امیر بھٹی کو بھجوا دی ہے، اس موقع پر پرویز الٰہی کے وکیل نے کہا تھا کہ ہماری استدعا ہے کیس کو آج ہی سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔
بعد ازاں جسٹس عابد عزیز شیخ کی جانب سے بھیجی گئی درخواست پر فیصلہ کرتے ہوئے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت کے لیے نیا بینچ لارجر بیچ تشکیل دے دیا اور جسٹس فاروق حیدر کی جگہ بنچ میں جسٹس عاصم حفیظ کو شامل کیا گیا۔ سماعت کے آغاز پر اپنے دلائل شروع کرتے ہوئے پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ پرویز الٰہی 22 جولائی کو چیف منسٹر منتخب ہوئے،
پرویز الٰہی نے مطلوبہ تعداد میں ووٹ حاصل کیے لیکن ڈپٹی اسپیکر نے 10 ووٹ نکال دیئے،یہ معاملہ سپریم کورٹ میں گیا اور سپریم کورٹ نے 27 جولائی کو ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے کو غلط قرار دیا،سپریم کورٹ نے کہا کہ وزیر اعلی پرویز الٰہی ہوں گے۔علی ظفر نے کہا کہ وزیر اعلی کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا جا سکتا ہے، 20اراکین اسمبلی کے دستخط کے ساتھ تحریک جمع ہو سکتی ہے،
چیف منسٹر کو اسمبلی منتخب کرتی ہے، چیف منسٹر کو تعینات نہیں کیا جاتا، اگر گورنر سمجھے کہ وزیر اعلی اکثریت کھو چکے ہیں تو وہ عدم اعتماد کے ووٹ کا کہ سکتے ہیں، عدم اعتماد کے لیے الگ سے سیشن بلایا جاتا ہے۔پرویز الٰہی کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ گورنر تحریک عدم اعتماد کے لیے دن اور وقت کا تعین نہیں کر سکتا، جب عدم اعتماد کے لیے 3سے 7روز کا وقت ہے
تو اعتماد کے ووٹ کے لیے ایسا کیوں نہیں ہو سکتا،عدم اعتماد کے لیے بھی طریقہ کار موجود ہے اراکین کو نوٹس دیتے ہیں۔اس دوران عدالت نے استفسار کیا کہ رولز کے مطابق کیا اسی دن ووٹنگ نہیں ہو سکتی۔جس پر علی ظفر نے کہا کہ اسپیکر کو اختیار ہے وہ ایک ہی دن نوٹس اور ووٹنگ کرا سکتا ہے۔علی ظفر نے کہا کہ ضروری ہے کہ اسپیکر ووٹنگ کے لیے دن مقرر کرے اور وزیر اعلی کہے کہ اعتماد کا ووٹ نہیں لیتا
تو گورنر کوئی آرڈر پاس کر سکتے ہیں، گورنر نے اعتماد کے ووٹ کے لئے اسپیکر کو خط لکھا، وزیر اعلی نے اعتماد کا ووٹ لینے سے انکار نہیں کیا، اجلاس اسپیکر نے بلانا ہے وزیر اعلی خود سیشن نہیں بلا سکتا۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اجلاس ہوا ہی نہیں تو پھر گورنر نے خود سے کیسے فیصلہ کرلیا،اجلاس بلانے کے اختیارات اسپیکر کے پاس ہیں، یہ تو ایسے ہی کہ دو افراد کے درمیان لڑائی کے نتیجے
میں سزا تیسرے کو دے دی جائے۔اس موقع پر جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیئے کہ اگر گورنر نے اعتماد کے ووٹ کا کہا ہے تو اس پر عمل درآمد تو ہونا چاہیے۔جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ گورنر اعتماد کے ووٹ کا کہہ سکتا ہے یہ تو رولز میں ہے۔اس پر علی ظفر نے کہا کہ عدم اعتماد کے ووٹ کے لیے اسمبلی کا پروسیجز بھی ہے، اس پورے پراسس کے لیے مناسب وقت دینا چاہیے،
اگر کوئی سیشن ہی نہیں ہے تو وزیر اعلی کہاں ووٹ لے گا۔علی ظفر نے کہا کہ میڈیا پر خبر آئی کہ ایک وزیر کی پرویز الٰہیکے ساتھ تکرار ہوئی اس نے استعفیٰ دے دیا،کہا گیا عمران خان نے بیان دیا کہ پرویز الٰہی کی کابینہ میں ایک اور وزیر کا اضافہ ہوا اور انہیں پتا ہی نہیں ان بنیادوں پر عدم اعتماد اور اعتماد کے ووٹ کا کہا گیا، ان کو یہ نظر نہیں آتا پرویز الٰہی پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہیں، یہ بیان بھی میڈیا پر آیا۔ اس دوران جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو منحصر ہے گورنر صاحب ٹی وی کون سا دیکھتے ہیں
جس پر عدالت میں قہقہہ لگے۔جسٹس عابد عزیز شیخ نے علی ظفر سے استفسار کیا کہ آپ کہتے ہیں سیشن بلائے بغیر وزیر اعلیٰ کو ڈی سیٹ کر دیا گیا، یہ سارا پراسس تو اب بھی ہو سکتا ہے، یہ سارا بحران حل ہو سکتا ہے اگر ووٹنگ کے لیے مناسب وقت دے دیا جائے۔علی ظفر نے کہا کہ یہ تو تب ہو گا جب ڈی سیٹ کرنے کا نوٹیفکیشن کالعدم ہو گا۔جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ
یہ ہم دیکھیں گے جو قانون کے مطابق ہوا فیصلہ کریں گے۔ علی ظفر نے کہا کہ پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے، صوبے میں کابینہ ہے مختلف پراجیکٹس چل رہے ہیں، گورنر منتخب ہو کر نہیں آتا۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ گورنر کے احکامات میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگلے چیف منسٹر تک وزیر اعلی کام جاری رکھیں گے۔علی ظفر نے کہا کہ اگر وزیر اعلی رہے گا تو کابینہ بھی رہے گی،
کابینہ کے بغیر وزیر اعلی نہیں رہ سکتا۔جسٹس عابد عزیز شیخ نے سوال کیا کہ اگر ہم گورنر کا نوٹیفکیشن معطل کردیں تو کیا آپ فوری اسمبلی تحلیل کریں دیں گے تو اس سے نیا بحران پیدا ہو گا،کیا آپ تحریری طور پر یقین دہانی کروا سکتے ہیں کہ عدالت نوٹیفکیشن معطل کرے تو اسمبلیاں تحلیل نہیں کریں گے؟۔عدالت نے بیرسٹر علی ظفر کو پرویز الٰہی سے ہدایات لینے کیلئے وقت دے دیا،
عدالت نے قرار دیا کہ ہمیں آپ پہلے بیان حلفی دیں تو پھر اس پر حکم جاری کریں گے۔جس کے بعد کیس کی سماعت کچھ دیر کے لئے ملتوی کر دی گئی۔خیال رہے کہ جمعرات کی شب گورنر پنجاب بلیغ الرحمن نے اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکامی پر وزیراعلی چوہدری پرویز الٰہی کو عہدے سے ڈی نوٹیفائی کردیا تھا، گورنر نے رات گئے وزیر اعلی پنجاب کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا
آرڈر اپنے ٹوئٹر اکانٹ سے جاری کیا تھا۔گورنر پنجاب بلیغ الرحمن نے ڈی نوٹیفائی کرنے کے اپنے آرڈر میں کہا تھا کہ انہوں نے 19 دسمبر کو وزیر اعلی پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کی تھی۔جاری حکم نامے کے مطابق 21 دسمبر سہ پہر چار بجے وزیراعلی پنجاب کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا گیا، مگر 48 گھنٹے گزرنے کے باوجود انہوں نے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا،
لہذا آئین کے آرٹیکل 30 کے مطابق صوبائی کابینہ کو ختم کیا جاتا ہے۔گورنر پنجاب کے جاری حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ سابق وزیراعلی پرویز الہی نئے وزیراعلی پنجاب کے انتخاب تک اپنا کام جاری رکھیں۔حکم نامے کی ایک نقل چیف سیکریٹری پنجاب کو بھی بھیجی گئی جس میں اس پر عمل درآمد کے لیے فوری اقدامات کی ہدایت کی گئی۔