کراچی (این این آئی)اکتوبر کے آخر میں مسلسل چوتھے ماہ بھی گاڑیوں پر لیے جانے والے قرضوں میں کمی کا رجحان برقرار ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ کے آخر میں آٹو فنانسنگ 345 ارب روپے تھے جو کہ گزشتہ برس اکتوبر کے 346 ارب روپے سے 0.1 فیصد کم ہیں،حالیہ آٹو فنانسنگ 1.4 فیصد ہے جو کہ رواں سال ستمبر سے کم ہے۔رپورٹ کے مطابق گاڑیوں کی خریداری میں کمی کی
وجہ قیمتوں میں بلند اضافہ، شرح سود میں اضافہ، اسٹیٹ بینک کی جانب سے آٹو فنانسنگ کو کم کرنے کے لیے اقدامات، درآمد پر پابندیاں اور گاڑیوں کی ترسیل میں تاخیر کی وجہ سے گزشتہ چند ماہ میں مختلف اسمبلرز کے پلانٹ بند ہونا ہے تاہم کچھ اسمبلرز باالخصوص چینی اور کورین نے حال ہی میں بندرگاہ سے اپنی درآمد شدہ آٹو کٹس کی کلیئرنس کے بعد مکمل ادائیگی پر گاڑیوں کی فراہمی کی پیشکش شروع کردی ہے مگر بلند قیمتوں اور گزشتہ ماہ شرح سود میں کیا گیا اضافہ ان کی فروخت کو مزید تاخیر کا شکار کر سکتا۔پاک کویت انویسٹمنٹ کمپنی لمیٹڈ کے سربراہ ریسرچ سمیع اللہ طارق نے نجی ٹی وی کو کہا کہ حکومت گاڑیوں کی طلب میں تیزی برقرار رکھنا نہیں چاہتی اس لیے وہ برآمد شدہ آٹو پارٹس اور لوازمات کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ ادائگیوں کی صورتحال کو مزید کمزور کرنے میں مدد مل سکے۔سمیع اللہ طارق نے کہا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے 100 بیسس پوائنٹس کے اضافہ کے ساتھ شرح سود 16 فیصد پر پہنچ گیا ہے جس کی وجہ سے اگلے سال تک بھی گاڑیوں کی طلب میں کمی رہنے کا امکان ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر آئندہ چند ماہ میں شرح سود میں تین سے چار فیصد پوائنٹس کی کمی کی جاتی ہے تو گاڑیوں کی طلب بحال ہو سکتی ہے۔سمیع اللہ طارق نے کہا کہ گزشتہ سال ستمبر میں بینچ مارک شرح سود 7.25 فیصد سے بڑھ کر 16 فیصد تک پہنچ گیا تھا جو صارفین کو گاڑیوں پر لیے جانے والے قرضوں کی ماہانہ بھاری قسط ادا کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صارفین نے نئی گاڑیوں کی خریداری میں بھی کمی کردی ہے اور یہ حقیقت اس بات سے صاف ظاہر ہوتی ہے کہ آٹو سیلز میں جولائی تا اکتوبر کے دوران 39 ہزار 700 یونٹس تک گر گئی جو ایک سال قبل 74 ہزار 952 یونٹس تھی .انہوں نے کہا کہ صارفین میں گاڑیوں کی خریداری کو لے کر بے چینی کی ایک اہم وجہ گزشتہ سال ستمبر سے قیمتوں میں اوسطا 40 فیصد اضافہ ہے۔
سمیع اللہ طارق نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ہونڈا سٹی مینیوئل کی قیمت 37 لاکھ سے زیادہ ہے جو کہ گزشتہ سال ستمبر میں 25 لاکھ 90 ہزار کی تھی۔آٹو فنانسنگ کو لون کی حد 30 لاکھ روپے مقرر کرنا، مہنگی گاڑیوں کی فروخت میں کمی لانے کے ساتھ ساتھ قرضوں کی ادائیگی کی
مدت میں کمی جیسے چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔گزشتہ سال اسٹیٹ بینک نے قرضوں کے بوجھ کے تناسب کو بھی 50 فیصد سے کم کر کے 40 فیصد کر دیا تھا جس کے نتیجے میں ماہانہ آٹو لون کی ادائیگی کسی کی آمدنی کا 40 فیصد یا اس سے کم ہونی چاہیے۔
پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹو پارٹس اینڈ اسیسریز مینوفیکچررز کے چیئرمین منیر بانا نے اکہ کہ شدید سیلاب، بلند افراط زر، ڈالر کی بڑھتی قیمت، درآمداد پر پابندیاں اور سیاسی غیریقینی نے مقامی ٹریکٹر کی صنعت کو متاثر کیا ہے جس کو ٹریکٹرز کی فروخت میں کمی کے باعث پیداوار میں کمی کا سامنا ہے۔