جمعہ‬‮ ، 15 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

کمزور حکومت کے ساتھ قانون کی حکمرانی قائم ہو سکتی ہے اور نہ ہی معیشت کو پائوں پر کھڑا کیا جا سکتا ہے ، عمران خان

datetime 22  ‬‮نومبر‬‮  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور( این این آئی)پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت نے ملک کا جو حال کر دیا ہے ہم نے تو انشااللہ واپس آنا ہی ہے ،ہمیں تو انتخابی مہم چلانے کی بھی ضرورت نہیں ، عوام ، تاجر ، سرمایہ کار سب متفق ہیں کہ یہ حکومت کچھ نہیں کر سکتی ،صاف اور شفاف انتخابات ہوں گے

تو معیشت کی از سر نو بحالی ہو گی،حکومت اچھی اکثریت سے آئے ، آپ کمزور حکومت کے ساتھ قانون کی حکمرانی قائم کر سکتے ہیں نہ معیشت کو پائوں پر کھڑا کر سکتے ہیں۔ ، اب سمجھتا ہوں واضح اکثریت سے حکومت آئے وہ پھر سب سے پہلے قانون کی حکمرانی پر عملدرآمد کرائے ،یہاں ہر جگہ مافیاز ہیں ، ٹیکس محصولات میں اضافے کے لئے ٹیکنالوجی لانے کا منصوبہ بنایا تو ایف بی آر کے اندر سے ایک سال تک مزاحمت کی گئی اور منصوبے کو سبوتاژ کیا گیا ،ایمسنٹی کے معاملے میں غلطی ہوئی ، کالا دھن صاف کرنے کے لئے ایمنسٹی صرف انڈسٹری میں سرمایہ کاری پر ہونی چاہیے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے موجودہ معاشی صورتحال کے حوالے سے کراچی میں منعقدہ سیمینار سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ عمران خان نے کہا کہ معیشت کے جو آج حالات ہیں جب ہم 2018ء میں آئے تھے تب بھی حالات بہت برے تھے ،سب سے بڑا مسئلہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ تھا ، ہمارے ہاں کبھی برآمدات پر زور نہیں لگایا ، ہم نے چین کو تیس سال میں اس بنیاد پر آگے بڑھتے ہوئے دیکھا ہے ، سب ممالک نے برآمدات بڑھا کر اپنی دولت میں اضافہ کیا ہے ۔جب برآمدات نہیں بڑھیں گی جو مرضی کر لیں معیشت گروتھ کرکے بھی پھنس جائے گی ۔ عمران خان نے کہا کہ ہم نے بڑی مشکلوں سے پہلا سال گزارا ، اگر ہمیں سعودیہ ِ، متحدہ عرب امارات اور چین مدد نہ دیتے تو ہمارے پاس ادائیگیوں کے لئے پیسے نہیں تھے، انہوںنے بروقت میں ہماری مدد کی ،

جیسے ہم مستحکم ہو رہے تھے اسی دوران کورونا آ گئے ، وہ بھی ایک بہت بڑا بحران تھا ،جس طرح میرے اوپر دبائو تھا اگر ہم لاک ڈائون لگا دیتے لوگ بھوکے مر جاتے ، ہم نے اس دوران بڑے بولڈ فیصلے کئے ،میں نے آئی ایم ایف کی سربراہ سے رابطہ کر کے انہیں قائل کیا ، ہم نے زراعت اور خاص طو رپر تعمیراتی انڈسٹری پر توجہ دی اور رعایتیں اور مراعات دیں ،

اس میں گروتھ سے ہم نے لوگوں کا روزگار بچا لیا اور گروتھ بھی بڑھنا شروع ہو گی ،ہمارے آخری سال میں جی ڈی پی گروتھ تقریباً چھ فیصد پر تھی۔ یہ سوال ضرور پوچھنا چاہیے کہ جب رجیم چینچ کی گئی انہوں نے نہیں سوچا تھا ۔ مہنگائی کاسپر سائیکل تو پوری دنیا میں آیا ہوا تھا ، ہم نے تو بڑا توازن رکھا ہوا تھا ۔آض زر مبادلہ کے ذخائر کے کیا حالات ہیں ،برآمدات کے کیا حالات ہیں ۔

ہم نے کرنٹ اکائونٹ خسارے کو کنٹرول کیا حالانکہ تیل کی قیمتیں اوپر چلی گئی تھیں۔ انہوںنے کہا کہ جب ہمیں پتہ چلا کہ سازش ہو رہی میں نے اس وقت کہہ دیا تھا کہ کسی سے معیشت کنٹرول نہیں ہو گی ، سیاسی عدم استحکام کا اثر براہ راست معیشت پر پڑے گا، جن اکنامک منیجرز کولایا جارہا ہے ان کا تیس سال کا ٹریک ریکارڈ تو سب کے سامنے تھا ،ان کا کون سا سنہر ی دور تھا جس میں انہوں نے معیشت کو سنبھالا تھا،

90ء سے پہلے بر صغیر میں معاشی طور پر پاکستان کے اشاریے بہتر تھے ،ان کا کون سا ٹریک ریکارڈ تھاکہ ان کو دوبارہ لایا جارہا تھا، آج جو معیشت کے ساتھ ہوا وہ ہونا ہی تھا۔ جب میں نے کہا کہ یہ جو حکومت آئی ہے انہوں نے ملک کو ڈیفالٹ کی طرف لے کر جانا ہے تو یہ کہا گیا کہ عمران خان پر آرٹیکل چھ لگا دینا چاہیے ۔ اب سوال یہ ہے کہ اس سے نکلنا کیسے ہے ، جب تک اس ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا کوئی بھی جینئس لے آئیں وہ کچھ نہیں کر سکتا ،

معیشت سیاسی استحکام کے بغیر ممکن نہیں ۔ آج جہاں ہم کھڑے ہیں کو ن بتا سکتا ہے کہ دو ماہ کے بعد کیا ہوگا،باہر کے سرمایہ کار بھی یہی سوچ رہے ہیں ،وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت اپنا بوجھ نہیںاٹھا سکتی ۔ 88فیصد کاروباری لوگ سمجھتے ہیں پاکستان کی سمت نہیںہے ان کا بھی حکومت پر اعتماد نہیں ہے ، اعتماد بحال کرانے کے لئے انتخابات کرانا ہوں گے۔ جب تک انتخابات نہیں کرائیں گے اس ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ

یہ کہا گیا کہ ہم سیاسی سر گرمیاں واپس اقتدار میں آنے کے لئے کر رہے ہیں ، انہوں نے ملک کا جو حال کر دیا ہے ہم نے تو انشااللہ واپس آنا ہی ہے ،ہمیں تو انتخابی مہم چلانے کی بھی ضرورت نہیں ، عوام ، تاجر ، سرمایہ کار سب متفق ہیں کہ یہ حکومت کچھ نہیں کر سکتی ۔عمران خان نے کہا کہ موجودہ حکمران ملک کو وہاں لے جائیں گے جہاں سب کے ہاتھ سے باہر نکل جائے گا ، خدانخواستہ یہ ملک کو وہاںنہ دھکیل دیںکہ جو بھی حکومت آئے اس صورتحال کو کنٹرول کرنا اس کے بس میں نہ ہو ۔

صاف اور شفاف انتخابات ہوں گے تو از سر نو بحالی ہو گی،حکومت اچھی اکثریت سے آئے ، مجھے اگر کسی نے پوچھا کہ اگر 2018 ہو آپ کو پھر سے موقع ملے تو میں نے کہا کہ اگر مجھے اکثریت نہ ملے تو میں کبھی حکومت نہ لوں۔ہمارے ایک طرف معاشی چیلنجز بڑھ رہے تھے اور دوسری طرف قانون کی حکمرانی نہیں تھی ،آپ کمزور حکومت کے ساتھ قانون کی حکمرانی قائم کر سکتے ہیں نہ معیشت کو پائوں پر کھڑا کر سکتے ہیں۔ صدارتی نظام بالکل مختلف ہے اس میں استحکام ہے ،پارلیمانی نظام میں مخلوط حکومت ہے ،

اس کے ساتھ بڑے چیلنجز ہیں ، میں نے کہا کہ اگر ایسی اکثریت ہوتی تو میں پھر سے انتخابات کرا دیتا ۔ اب سمجھتا ہوں واضح اکثریت سے حکومت آئے وہ پھر سب سے پہلے قانون کی حکمرانی پر عملدرآمد کرائے ، معیشت کے مسائل ہیں وہ قانون کی حکمرانی سے جڑ ے ہوئے ہیں جب تک قانونی کی حکمرانی نہیں ہو گی گورننس بہتر نہیں ہوگی ، یہاں مافیاز بیٹھے ہوئے ہیں ،پاکستان میں ہر جگہ مافیاز ہیں، ہم ایف بی آر میںٹیکنالوجی لانا چاہتے تھے ہم کوشش کرتے رہے کہ ٹیکنالوجی کا استعمال کریں تاکہ ٹیکس محصولات بڑھائیں ،

ایک سال تک کوشش کرتے رہے لیکن اسے اندر سے سبوتاژ کر دیا جاتا ،اندر سے لوگ تھے جو ٹیکنالوجی نہیں لانا چاہتے تھے، جب ہم نے حتمی بریک ڈئوئون کر کے ٹریک اینڈ سسٹم لگایا کیونکہ کئی اربوں کا سیلز ٹیکس ہے،ہم نے ڈیٹا بیس سے نشاندہی کی اور بہت سے لوگ جن کا لائف سٹائل عمدہ ہے لیکن وہ ٹیکس نہیں دیتے لیکن جب ہماری یہ کوششیں جاری تھیں تب ہماری حکومت گرا دی گئی ۔ طاقتور حکومت ہی قانون کی حکمرانی قائم کرسکتی ہے، مافیاز ہیں ،شوگر مافیا سیمنٹ مافیا ہے ،سب سے بڑا مافیا رئیل اسٹیٹ مافیا ہے ۔

ایل ڈی اے کے ڈی جی نے بتایا کہ دریا کے اندر یا کنارے 200ارب روپے کی زمین بیچ دی گئی ہے ، یہ محکمہ آبپاشی یا جنگلات کی زمین تھی اس کے پلاٹ بیچ کر پیسہ باہر چلا گیا ، میں نے پوچھا ایکشن کیوں نہیں لیا تو بتایا گیا کہ پولیس کو پیسہ کھلا دیا جاتا ہے الٹا ہمارے لوگوں پر ایف آئی آر کرا دی گئیں،ہر سطح پر چل رہا ہے ۔ ہم نے ڈیجیٹل میپنگ کرائی صرف اسلام آباد1200ارب روپے کی زمین پر قبضہ ہوا ہے جو سرکاری زمین ہے اور سارے پاکستان میں ہی ایسے ہے ۔ ریاست کے پاس اختیار ہو وہ صرف طاقتور حکومت سے ہو گی ۔

انہوں نے کہا کہ ہم زو ر لگا کر رکاوٹیں ہٹاتے گئے ہر جگہ رکاوٹیں تھیں ،ہمارا ذہن ہی نہیں ہے کہ برآمدات بڑھائیں ، برآمدا کنندگان ڈالرزلے کر آرہے ہیں لیکن سسٹم رکاوٹیں کھڑا کرتا ہے ،ہم نے ترسیلات زر بڑھائیں اس کے لئے مراعات دیں ۔انہوں نے کہا کہ سب سے بڑی چیز قانون کی حکمرانی ہو گی تو باہر سے سرمایہ کاری آئے گی ۔صرف 15سے20لاکھ اوورسیز سرمایہ کاری کے لئے آجائیں تو اتنا پیسہ لا سکتے ہیں ہمیں کسی سے پیسے لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ان سے پوچھیں کیوں پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کرتے یہی پاکستانی باہر کے ممالک میں سرمایہ کاری کرتے ہیں

اس کی ایک وجہ ہے کہ انہیں معاہدوں کی پاسداری نہ ہونے کا خوف ہے ، ان کی زمینوں پر قبضے ہو جاتے ہیں ،اگر کاروبار شروع کرنا ہے توکیا انہیں یہاں انصاف کے نظام سے تحفظ ملے گا ۔عمران خان نے کہا کہ ہم نے قانون کی بالا دستی قائم کرنی ہے ، طاقتور آسانی سے قانون کے نیچے نہیں آتا ۔ پاکستان کے انصاف کے نظام کی وجہ سے یہاں سرمایہ کاری کی کمی ہے ۔ انہوںنے کہا کہ 22کروڑ لوگ بہت بڑی مارکیٹ ہوتی ہے ، یہاں ملٹی نیشنل کے ہیڈ کوارٹر ہونے چاہئیں لیکن ان لوگوں کو پاکستان کے نظام پر اعتماد نہیں ہے ۔ ہمیں استحکام چاہیے کہ ایک حکومت آئے اور پانچ سال کے لئے آئے اور وہ قانون کی حکمرانی پر عملدرآمد کرے ،

اس کے لئے سپیشل کورٹ بھی بنانے پڑیں تو بنانی چاہئیں ۔ جو بھی برآمدی انڈسٹری انہیں خصوصی مراعات دیں ۔ عمران خان نے کہا کہ میرے سے ایک غلطی ہوئی جو ہم نے آخر میں شروع کی پہلے ایمنسٹی دیتے اور یہ ایک ہونی چاہیے جو بھی اپنا پیسہ انڈسٹری میں لگائے وہ کالا دھن سفید کر سکتا ہے ، کاروبار کی راہ میں رکاوٹیں دور کریں ۔ میں نے ساڑھے تین سال میں دیکھا یہاں بہت زیادہ پوٹینشل ہے یہاں سیاحت میں پوٹینشل ہے ،پاکستان میں ایسی ایسی جگہیں ہیں جو دنیا کے کئی مقامات سے خوبصورت ہیں،ہم نے پلان کیا تھاکہ ا سکردو میں ریزارٹ بنائیں گے ،آسٹریا سے سیاحت کے لوگ آئے ،پاکستان کے اندر ہر طرح کی سیاحت ہے لیکن کبھی زور نہیں دیا گیا ۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت افغانستان میں استحکام آرہا ہے وہ بھی پوٹینشل ہے کہ ہم سنٹرل ایشیاء کو پیش نظر رکھتے ہوئے کام کریں ۔انہوں نے کہا کہ توانائی کا بحران ہے ، ہمیں آتے ساتھ ہی روس سے تیل لینا چاہیے تھا،اپریل میں کم قیمت پر تیل خریدنا شروع کر دینا چاتھا۔موجودہ حکمران امریکہ سے اتنے خوفزدہ ہوتے ہیں کہ بات نہیں کرتے حالانکہ ہم امریکہ کو قائل کر سکتے ہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ اپنے ملک کے لئے کھڑا ہوا ہے اور امریکہ سمجھتا ہے ۔پاکستان میں پانچ کروڑ لوگ غربت کی لکیر کے نیچے ہیں اور موجودہ مہنگائی کے جھٹکے جاری رہے تو یہ تعداد مزید کئی گنا بڑھ جائے گی۔ ہم امریکہ کو قائل کر سکتے تھے کہ سستا تیل آنے دو ۔ انہوں نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیںموقع دیا تو ہم نے انصاف کا نظام مضبوط بنانا ہے ۔

موضوعات:



کالم



23 سال


قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…

گیم آف تھرونز

گیم آف تھرونز دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے…