اسلام آباد(آئی این پی ) سپریم کورٹ نے عمران خان کے لانگ مارچ کے خلاف درخواست غیر موثر ہونے پر نمٹا تے ہوئے کہا ہے کہ ایسا حکم دینا نہیں چاہتے جو قبل از وقت ہو، احتجاج کا حق لامحدود نہیں، آئینی حدود سے مشروط ہے، اگر واضح طور پر آئینی خلاف ورزی کا خطرہ ہو تو عدلیہ مداخلت کرے گی، ہوسکتا ہے خلاف ورزیوں پر دوسرے فریق کا اپنا موقف ہو۔
سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی پر عدالت کے لیے معاملہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔جمعرات کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے عمران خان کے لانگ مارچ کے خلاف سینیٹر کامران مرتضی کی درخواست پر سماعت کی۔ عدالت نے سوال کیا کہ کیا عمران خان کے لانگ مارچ کے لیے جگہ کا تعین کیا گیا ہے؟انتظامیہ سے پوچھ کر عدالت کو آگاہ کیا جائے۔ عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو آدھے گھنٹے میں انتظامیہ سے پوچھ کر بتانے کا حکم دیا۔ سماعت کے دوبارہ آغاز پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ لانگ مارچ کے حوالے سے انتظامیہ نے کیا کیا ہے؟ اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ انتظامیہ کو اسلام آباد میں لانگ مارچ کے لیے پی ٹی آئی کا خط ملا، انتظامیہ نے پی ٹی آئی سے تاریخ، وقت اور جگہ کا پوچھا جس کا جواب نہیں دیا گیا، وزیرآباد واقعے سے پہلے پی ٹی آئی نے خون ریزی کی باتیں کیں، واقعے کے بعد انتظامیہ نے پی ٹی آئی کو اسلام آباد داخلے کی اجازت دینے سے انکارکیا۔
اسلام آباد میں جلسے کی اجازت پر کیس اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرالتوا ہے۔ جسٹس عائشہ نے کہا کہ پی ٹی آئی کا لانگ مارچ تو کافی دنوں سے چل رہا ہے، کیا آپ نے انتظامیہ سے رجوع کیا ہے؟ لانگ مارچ کے معاملے میں جلدی کیا ہے اور انتظامیہ کی غفلت کیا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ لانگ مارچ سیاسی مسئلہ ہے جس کا سیاسی حل ہوسکتا ہے، اس قسم کے مسائل میں مداخلت سے عدالت کے لیے عجیب صورتحال پیدا ہوجاتی ہے،۔
آپ نے اپنی درخواست میں ایک آڈیو کا ذکر کیا ہے اور اس آڈیو میں ہتھیار لانے کا ذکر ہے، آڈیو سچ ہے یا غلط لیکن اس سے امن وامان کی صورتحال خراب ہوسکتی ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ احتجاج کا حق لامحدود نہیں، آئینی حدود سے مشروط ہے، اگر واضح طور پر آئینی خلاف ورزی کا خطرہ ہو تو عدلیہ مداخلت کرے گی۔
ہوسکتا ہے خلاف ورزیوں پر دوسرے فریق کا اپنا موقف ہو، سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی پر عدالت کے لیے معاملہ پیچیدہ ہوجاتا ہے، عدالت کے حکم عملدرآمد کے لیے ہوتے ہیں۔ اس دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اب تو موجودہ درخواست غیرموثر ہوگئی ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مقف اپنایا کہ امن وامان برقرار رکھنے کے لیے عدالت کی مداخلت چاہتے ہیں، اس پر جسٹس اطہر نے کہا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ صورتحال ایگزیکٹوکے بس سے باہر ہوچکی؟
عدالت نے کہا کہ کیا وفاق کو نہیں معلوم کہ اپنی ذمہ داری کیسے پوری کرنی ہے؟ سپریم کورٹ انتظامی معاملات میں کیا کرسکتی ہے؟ ریاست طاقتور اور بااختیار ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سمجھ سکتے ہیں کہ آپ موجودہ صورتحال سے پریشان ہیں، ملک میں ہنگامہ نہیں امن وامان چاہتے ہیں، مگر ایسا حکم دینا نہیں چاہتے جو قبل از وقت ہو اوراس پرپھرعملدرآمد نہ ہو۔ بعد ازاں عدالت نے عمران خان کے لانگ مارچ کیخلاف درخواست غیر موثر ہونے پر نمٹادی جب کہ عدالت نے کہا کہ اگر حالات خراب ہوئے تو نئی درخواست دائر کی جاسکتی ہے۔