لاہور (این این آئی)لاہور ہائیکورٹ نے ایک شخص کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ خارج کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کو خواب دیکھنے پر سزا نہیں دی جاسکتی، پولیس افسر کو تفتیش کرتے وقت ملزم کی ذہنی حالت کے درست ہونے کا تعین کر لینا چاہئے۔
ذہنی حالت پر شک کی صورت میں پولیس کو مجاز فورم سے نفسیاتی تشخیص کرانی چاہئے۔تفصیلات کے مطابق ۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے میانوالی کے تھامے میں درج توہین مذہب کا مقدمہ خارج کرنے کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ ایک شخص کو اس کے خوابوں کے لیے سزا نہیں دی جا سکتی۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے تحریری فیصلے میں لکھا کہ پولیس افسر کو تفتیش کرتے وقت ملزم کی ذہنی حالت کے درست ہونے کا تعین کر لینا چاہیے، ذہنی حالت پر شک کی صورت میں پولیس کو مجاز فورم سے نفسیاتی تشخیص کرانی چاہیے۔عدالت نے رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ کو فیصلے کی روشنی میں اقدامات کے لیے کاپی آئی جی پنجاب کو بھجوانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اکثر ہوتا ہے کہ گستاخی کے ملزمان کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہوتی۔عدالتی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ ایک شخص ہر رات کئی خواب دیکھ سکتا ہے جس پر اس کا اختیار نہیں ہوتا، ایک شخص کو اس کے خوابوں کے لیے سزا نہیں دی جا سکتی۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے لکھا کہ پاکستان میں قانون ذہنی بیمار افراد کو تحفظ فراہم کرتا ہے، ذہنی بیمار افراد کو سزا سے بچانا چاہیے اور ان کا علاج ہونا چاہیے۔لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کسی ایسے شخص کا ٹرائل نہیں کیا جا سکتا جو فاتر العقل ہو اور اپنا دفاع نہ کر سکے۔