اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی شائع خبر کے مطابق انہیں گزشتہ روز اپنے ذرائع سے اطلاع ملی کہ وزیراعظم شہباز شریف اور ن لیگ کے رہنما نواز شریف کو کچھ لوگ مشورہ دے رہے ہیں کہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو چھ ماہ کیلئے ایکسٹینشن دے دی جائے جبکہ جنرل باجوہ پہلے ہی صاف صاف کہہ چکے ہیں کہ وہ مزید ایکسٹینشن نہیں لیں
گے اور اس ماہ کے آخر میں ریٹائر ہو جائیں گے۔مجھے ذاتی طور پر بھی اہم عسکری ذرائع نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ جنرل باجوہ مزید ایکسٹینشن کسی صورت میں نہیں لیں گے۔ اب کچھ افراد اس کوشش میں ہیں کہ وزیراعظم جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن کیلئے راضی کریں۔ ایسا مشورہ دینے والے نہ حکومت کے خیر خواہ ہیں نہ جنرل باجوہ کے۔ مجھے امید ہے کہ وزیراعظم اور ن لیگ کی قیادت کے ساتھ ساتھ جنرل باجوہ بھی ایسے مشورے کو سختی سے رد کریں گے۔میری تو ہمیشہ سے یہی رائے رہی ہے کہ ایکسٹینشن تو ہونی ہی نہیں چاہئے، کیوں کہ اس سے فوج کے ادارے کو نقصان ہوتا ہے۔ میں تو شروع سے 2019 میں بنائے گئے اُس قانون کے بھی خلاف ہوں جس کے ذریعے افواج پاکستان کے سربراہان کو ایکسٹینشن دینے کیلئے ایک قانونی جواز پیدا کیا گیا، جس میں سپریم کورٹ اور پارلیمینٹ دونوں نے بہت متنازعہ کردار ادا کیا۔پاکستان، افواج پاکستان اور پاکستان کی سیاست اور جمہوریت سب کیلئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ اس قانون کو ختم کیا جائے اور ایک ایسی پالیسی بنائی جائے کہ آئندہ ایکسٹینشن کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہو۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ افواج پاکستان کے سربراہان کی تعیناتی کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتی کی طرح سنیارٹی کے اصول کو مدنظر رکھا جائے۔ یعنی جو سب سے سینئر ہو اُسے آرمی چیف تعینات کر دیا جائے۔اس سے ہر تین سال بعد اس تعیناتی کے گرد گھومتی سیاست، افواہوں اور رسہ کشی سے جان چھوٹ جائے گی جو نہ صرف اداروں کیلئے بہتر ہوگا بلکہ پاکستان کی سیاست اور جمہوریت کیلئے بھی مفید ہوگا اور بے جا کے سیاسی عدم استحکام سے حکومتوں کی جان چھوٹ جائے گی۔