تہران (این این آئی)ایرانی سکیورٹی اداروں نے مہسا امیینی کی پولیس حراست میں ہلاکت پر احتجاج کرنے والے ایک شخص کو محض اس لیے قریب سے گولی مار کر ہلاک کر دیا کہ وہ سپریم لیڈر کے پوسٹر کو پھاڑ رہا تھا۔بین الاقوامی نشریاتی ادارے کے مطابق یہ بہیمانہ واقعہ 21 ستمبر کو پیش آیا تھا۔
جب 21 سالہ عرفان رضائی مظاہرین کا حصہ ہوتے ہوئے ایرانی سپریم لیڈر کی تصویر پر مبنی پوسٹر کو پھاڑ رہا تھا۔ اسے قریب سے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ۔ مگر اہل خانہ کو مرنے کے دودن بعد مشروط طور پر لاش دی گئی۔ یہ کہا گیا کہ اسے گولی مظاہرین میں سے ہی اس کے کسی ساتھء نے ماری ہے۔ تاہم ذرائع ابلاغ کے مطابق اس بارے میں اب تک کسی سرکاری ذمہ دار نے کوئی تبصرہ نہیں کیا ۔بعد میں ملنے والی اطلاعات کے مطابق رضائی کو موت اس کے گردوں اور تلی کو گولی لگنے سے پہنچنے والے شدید نقصان کی وجہ سے ہوئی تھی۔معلوم ہوا ہے کہ رضائی کی والدہ اپنے بیٹے کو گولی لگنے کی اطلاع ملنے پر مختلف ہسپتالوں اور جگہوں پر ماری ماری پھرتی رہی لیکن اس ے کسی سرکاری ذمہ دار نے اس بارے میں کچھ نہ بتایا ۔ حتی کہ جس ہسپتال میں رضائی کو زخمی حالت میں لے جایا گیا تھا اس کے عملے میں نے بھی نہیں بتایا ۔رضائی کی ماہ کو اس کے خون آلود کپڑے ایک آپریشن تھیٹر کے سامنے نظر آئے تو اسے علم ہوا ہے کہ اس کا بیٹا کس حال میں ہے۔
تاہم ماں کو بیٹے کی لاش دو دن بعد اس شرط پر دی گئی کہ وہ اور اس کا خاندان یہ مان لے کہ گولی مظاہرین میں سے کسی نے ماری تھی۔عرفان رضائی کی ماں انسٹا گرام پر لکھا ہے ‘ میرے بیٹے میں تمہاری تصویر لے کر گھنٹوں بیٹھی رہتی ہے اور روتی رہتی ہوں۔’واضح رہے 16 ستمبر کو مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والا احتجاج ابھی تک جاری ہے۔ 1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد اب تک کا ایک سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔