اتوار‬‮ ، 20 اپریل‬‮ 2025 

ایجنسیوں کے ذریعے فون ٹیپنگ کو روکا نہیں جا سکتا لیکن۔۔۔ خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ کے اہم انکشافات

datetime 11  اکتوبر‬‮  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) خفیہ ایجنسی کے ایک سابق سربراہ کا کہنا ہے کہ خالصتاً سیکورٹی وجوہات کی بنیاد پر خفیہ طور پر فون کالز سننے (فون ٹیپنگ) کا عمل بند نہیں کیا جا سکتا لیکن انٹیلی جنس ایجنسیوں کے عمل کو ریگولیٹ کیا جا سکتا ہے تاکہ آڈیوز لیک ہونے کے مسائل کی روک تھام کی جا سکے۔روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی خبر کے مطابق  بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا

کہ دنیا بھر کی ایجنسیاں سیکورٹی وجوہات کی بنا پر فون ٹیپنگ کرتی ہیں لیکن ہمارے پاس ضابطوں کا فقدان ہے۔ ذریع نے کہا کہ ہمارے پاس ضابطے نہیں، ایسے قوانین نہیں جو ایجنسیوں سے بالاتر ہوں۔ انہوں ںے مزید کہا کہ فون ٹیپنگ کے معاملے پر تفصیل سے بات ہونا چاہئے تاکہ جاسوسی کے معاملے پر ایسے بحث و مباحثہ ہو جس میں قومی سلامتی کو تحفظ ملے لیکن سیاسی مقاصد کیلئے یا پھر کسی کو بدنام کرنے کیلئے فون ٹیپنگ کی کوئی جگہ نہیں۔ پیر کے دن تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا تھا کہ آڈیو لیکس قومی سلامتی کی سنگین خلاف ورزی ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں وزیراعظم آفس اور وزیراعظم ہائوس کی پوری سیکورٹی پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بحیثیت وزیراعظم ان کی رہائش گاہ پر ان کی محفوظ (سیکیور) لائن کو بھی ٹیپ کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آڈیو لیکس کے مستند ہونے کے حوالے سے پی ٹی آئی عدالت سے رجوع کریگی اور اس کے بعد جے آئی ٹی کی تشکیل کا مطالبہ کرے گی تاکہ یہ پتہ چلایا جا سکے کہ کون سی انٹیلی جنس ایجنسی ٹیپنگ میں ملوث ہے اور کون ہے جو آڈیوز لیک کر رہا ہے اور ان میں سے زیادہ تر آڈیوز ترمیم شدہ یا پھر مصنوعی ہیں۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ یہ صورتحال تشویشناک ہے کیونکہ حساس سیکورٹی معاملات کی غیر قانونی ریکارڈنگ کی جا رہی ہے اور کی گئی ہے، نتیجتاً یہ ریکارڈنگز ہیک ہوئی ہیں، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پاکستان کی قومی سلامتی عالمی سطح کا پردہ چاک ہو چکا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب عمران خان خود وزیراعظم تھے اس وقت انہوں نے نجی ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ایجنسیوں کی جانب سے فون ٹیپ کرنے کی حمایت کی تھی۔

پاکستان ایسے چند جمہوری ملکوں میں سے ایک ہے جہاں انٹیلی جنس ایجنسیاں کسی ضابطے کے بغیر کام کرتی ہیں۔ ان ایجنسیوں کیلئے کوئی ضابطہ نہیں، کوئی ان سے ان کی کارکردگی پر سوال نہیں کرتا۔ پاکستان کی سرکردہ انٹیلی جنس ایجنسیاں (آئی بی اور آئی ایس آئی) ملک کے قیام کے فوراً بعد ایگزیکٹو آرڈر کے تحت قائم ہوئی تھیں لیکن ان کے کام کاج کے حوالے سے کوئی ضابطہ تیار نہیں کیا گیا۔

فی الوقت، یہ ایجنسیاں ایس او پیز کے تحت کام کرتی ہیں جن کی کوئی قانونی بنیاد نہیں لہٰذا ان ایجنسیوں کے تمام تر اقدامات کسی قانونی دائرۂ کار میں نہیں آتے۔ سابق ڈی جی آئی بی، شعیب سڈل نے قانون سازی کے حوالے سے اقدامات کیے تھے۔ زرداری گیلانی حکومت کے ابتدائی دنوں میں انہوں نے آئی بی چیف کی حیثیت سے قانون سازی کے حوالے سے انہوں پہلے انٹیلی جنس چیف کی حیثیت سے رضا کارانہ طور پر پارلیمانی نگرانی کیلئے اقدامات کیے اور دیگر جمہوریتوں کے قوانین کا مشاہدہ کرنے کے بعد ایک قانون کا مسودہ تیار کیا۔ ان کے سبکدوش ہونے کے بعد، ان کا تیار کردہ مسودہ ’’غائب‘‘ ہوگیا۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



ڈیتھ بیڈ


ٹام کی زندگی شان دار تھی‘ اللہ تعالیٰ نے اس کی…

اگر آپ بچیں گے تو

جیک برگ مین امریکی ریاست مشی گن سے تعلق رکھتے…

81فیصد

یہ دو تین سال پہلے کی بات ہے‘ میرے موبائل فون…

معافی اور توبہ

’’ اچھا تم بتائو اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے…

یوٹیوبرز کے ہاتھوں یرغمالی پارٹی

عمران خان اور ریاست کے درمیان دوریاں ختم کرنے…

بل فائیٹنگ

مجھے ایک بار سپین میں بل فائٹنگ دیکھنے کا اتفاق…

زلزلے کیوں آتے ہیں

جولیان مینٹل امریکا کا فائیو سٹار وکیل تھا‘…

چانس

آپ مورگن فری مین کی کہانی بھی سنیے‘ یہ ہالی ووڈ…

جنرل عاصم منیر کی ہارڈ سٹیٹ

میں جوں ہی سڑک کی دوسری سائیڈ پر پہنچا‘ مجھے…

فنگر پرنٹس کی کہانی۔۔ محسن نقوی کے لیے

میرے والد انتقال سے قبل اپنے گائوں میں 17 کنال…

نارمل معاشرے کا متلاشی پاکستان

’’اوئے پنڈی وال‘ کدھر جل سیں‘‘ میں نے گھبرا…