وزیراعظم ہائوس سے آڈیو لیک ہونا باعث تشویش ہے، حکومت کو اس پر سختی سے نمٹنا ہوگا ،مولانا فضل الرحمن

26  ستمبر‬‮  2022

ملتان (این این آئی)پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اور جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے وزیراعظم ہائوس سے آڈیو لیکس ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو اس پر سختی سے نمٹنا ہوگا،اسحق ڈار کی بطور وزیر خزانہ تعیناتی سے متعلق مجھ سے مسلم لیگ (ن)کی جانب کوئی رابطہ نہیں کیا گیا ،

اگر حکومت ایسا سوچ رہی ہے تو اس کے پیچھے ملکی خدمت کا جذبہ ہی کارفرما ہوگا،عمران خان ملک دشمن ثابت ہوئے،عوام کو ریلیف دینے کی ضرورت ہے، نومبر والی تبدیلی معمول کے مطابق میرٹ پر ہوگی۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ ملکی معیشت کے حوالے سے پاکستان کا گزشتہ تین چار برسوں کا ریکارڈ بہت افسوسناک ہے، گویا کہ سابقہ حکومت کا ایجنڈا تھا کہ کس طرح سے ملک کی معیشت کو تباہ کیا جائے، یعنی پاکستان کے خاتمے کا ایجنڈا تھا۔سربراہ جے یوآئی نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا میں ریاستوں کی بقا کا سب سے بڑا سبب اقتصادی استحکام ہی ہے، دفاعی قوت بھی دوسرے درجے کی چیز بن گئی ہے، پہلی چیز ملکی معیشت ہے، اگر ملکی معیشت کے اعتبار سے آپ کھوکلے ہوجاتے ہیں تو پھر ریاست اپنا وجود کھو بیٹھتی ہے۔سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ غیر مسلم دنیا میں چین ہمارا سب سے مضبوط دوست ہے، وہ سی پیک کو رول بیک کرنے پر ہم سے ناراض ہوگیا، اس نے ہم سے تعاون سے ہاتھ کھینچ لیا، سی پیک چین کی بہت بڑی سرمایہ کاری تھی جس کیلئے 1995 سے کام شروع ہوا تھا، ایک طویل سفر کے بعد 2015 میں اس پر کام شروع ہوا، عمران خان کی حکومت نے صرف سی بیک کو بند ہی نہیں کیا بلکہ دو ملکوں کے درمیان ہونے والے معاہدے میں کچھ چیزیں خفیہ اور کانفیڈینشل بھی ہوتی ہیں، انہوں نے ان معاہدوں کے خفیہ حصے امریکا اور آئی ایم ایف کو فراہم کیے۔

سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ یہ اس قدر بد دیانتی ہے اور اپنے اس حلف سے انحراف ہے جو کوئی شخص بطور وزیراعظم حلف ااٹھاتے ہوئے ریاستی رازوں کے تحفظ کیلئے لیتا ہے، جب انہوں نے اس حلف کی پاسداری بھی نہ کی تو پھر اس سے بڑھ کر امریکی غلامی اور کیا ہوسکتی ہے کہ جس کیلئے ان کو اپنا حلف بھی ایک روایتی حلف نظر کیا، اپنے ملک کے اسٹیٹ بینک کو انہوں نے آئی ایم ایف کے حوالے کردیا،

جسے انہوں نے اسٹیٹ بینک کی آزادی کا نام دے دیا اور آج وہ بینک نہ حکومت کو جواب دہ ہے نہ آپ کے وزیراعظم، کابینہ اور پارلیمنٹ کو جواب دہ ہے اور پھرآپ حکومت سے سوال کرتے ہیں کہ ڈالر کے ریٹ کیوں بڑھ رہے ہیں، روپے کی قدر میں کیوں کمی ہورہی ہے، یہ معاملہ شاید اب حکومت کے اختیار سے ہی باہر ہوچکا ہے اور یہ تحفہ بھی عمران خان ہی قوم کو دیا تھا۔انہوںنے کہاکہ اسحق ڈار کی بطور وزیر خزانہ تعیناتی سے متعلق مجھ سے مسلم لیگ (ن)کی جانب کوئی رابطہ نہیں کیا گیا،

لیکن اگر حکومت ایسا سوچ رہی ہے تو اس کے پیچھے ملکی خدمت کا جذبہ ہی کارفرما ہوگا۔انہوں نے کہا کہ اگر سابق دور حکومت میں ان کی خدمات وتجربات سے فائدہ اٹھا کر ملک کی معیشت کو درست کیا گیا تھا تو کیوں نہ ایک بار پھر انہیں وطن واپس بلا کر ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جائے۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ عمران خان نے پوری سیاست کرپشن کے الزامات کی بنیاد پر سیاسی رہنمائوں کے خلاف کی، جتنے کیسز انہوں نے سیاستدانوں کے خلاف بنائے، ایک کیس بھی کسی سیاستدان کے خلاف ثابت نہیں کرسکے،

ان کا مقصد صرف سیاستدانوں کو ذلیل و رسوا کرنا، ان کو عدالتوں می گھسیٹنا، ان کو نیب میں گھسیٹنا تھا۔سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ ذاتی طور پر مجھے مشاہدہ ہے کہ اداروں نے اپنے کام چھوڑ کر میری کوئی جائیداد اور کوئی پلاٹ تلاش کرنے کیلئے 4 سال ضائع کردیے، اس طرح کی بیہودہ صورتحال میں انہوں نے ملکی کی اداروں کو بھی ضائع کیا، ملکی وسائل کو بھی ضائع کیا۔انہوں نے کہا کہ ان کی اپنی کارکردگی کا یہ حال تھا کہ ان کے دور حکومت میں ملک کرپشن کی عالمی درجہ میں 116سے 124 پر پہنچ گیا،

ٹرانپرنسی نے ان کے دور حکومت میں کرپشن میں 4 سے 5 فیصد اضافے سے زیادہ کی بات کی، جب ان کی جانب سے تیار کردہ احتساب کمیشن کی زد میں ان کے وزرا آئے تو انہوں نے وہ احتساب کمیشن ہی ختم کردیا۔پی ڈی ایم سربراہ نے کہا کہ اب ہو کہتے ہیں کہ مجھ سے غلطیاں ہوئیں، غلطی کی بات نہیں ہے بلکہ آپ کی اہلیت ہی نہیں ہے، 4 سے 5 تک زرائے خزانہ تبدیل کیے، 5 ایف بی آر کے چیئرمین تبدیل کیے، ان کے وزیر خزانہ کی آڈیو لیک ہوئی جس میں اس نے آئی ایم ایف کو خط لکھ کر ملک کو دیوالیہ کرنے کی کوشش کی،

وہ شخص اس حد تک تعصب میں ڈوب گیا کہ وہ چاہتا ہے کہ ملک ڈیفالٹ کرجائے اور پھر وہ اس ملک میں سیاست کرے یا یہ کہ ان کا ایجندا ہی یہ تھا اور کیونکہ ان کی حکومت کو ہم نے گرادیا تو ان کا ایجنڈا نا مکمل رہ گیا اور حکومت کے خاتمے کے بعد اپنے ایجنڈے کی تکمیل وہ اس طرح کرنا چاہتے تھے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان جس طرح سے وہ تین چار ماہ سے پورے پاکستان میں پاگلوں کی طرح گھوم رہے ہیں، ہر روز کوئی نہ کوئی نئی بات کرتے ہیں، وہ خط کدھر گیا جو وہ لہرااتے تھے، غیرت کے ساتھ کاغذ لہرا کر بیرونی سازش کا بتا کر اسمبلی چھوڑی،

عدالت نے کہا کوئی سازش نہیں ہوئی، امریکا اور اس کے اداروں نے کہا کوئی سازش نہیں ہوئی، پھر خط کو چھوڑنا پڑا تو کہا کہ میرے قتل کی سازش ہو رہی ہے، بتانا کس نے سازش کی ہے، بتانا ایکس وائے زیڈ کون ہے، اس طرح سے اپنے کو مظلوم ومعصوم بنا کر پیش کرنے سے خود کو کوئی اہم شخص ثابت کرنا چاہتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ عمران خان فارن فنڈنگ کیس میں آپ عالمی چور رٹڈ ثابت ہوئے، اسرائیلیوں، یہودیوں، بھارتیوں، امریکنز سے مالی مدد ثابت ہوچکی، سپریم کورٹ کے ججوں اور ان کے فیصلوں کے مطابق آپ ملک دشمن ثابت ہوئے ہیں،

ہر ہفتے بعد ایک نیا موقف اپنایا، نئے بیانیے کے ذریعے خود کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش کی اور ہر لحاظ سے نااہل ثابت ہوئے۔انہوں نے کہا کہ اس طرح سے سیاست نہیں ہوتی جس طرح سے وہ سیاست کر رہے ہیں، جس طرح سے انہوں نے اپنے دور حکومت میں ملکی معیشت کو تباہ کیا، آج حکومت سے باہر آنے کے بعد بھی وہ یہ سوچتا ہے کہ ملکی تباہی کا ایجنڈا کیوں نامکمل رہا اور تاریخ ان کے بارے میں یہ ہی کچھ لکھے گی۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم ہائوس سے آڈیو لیکس ہونا باعث تشویش ہے اور حکومت کو اس پر سختی سے نمٹنا ہوگا، آپ بتائیں کہ پانامہ کوئی کیس نہیں تھا تاہم بنایا گیا،

سوال پانامہ، نتیجہ اقامہ نکلا، پوری حکومت گرادی گئی اس کے اوپر، ڈان لیکس کے معاملے کو کتنا بڑا ایشو بنایا گیا کہ وزیراعظم ہاس سے ایک جملہ کسے باہر گیا ہے اور آج وہاں سے آڈیو کالز لیک کی جا رہی ہیں، میں وزیراعظم کو مشورہ دوں گا کہ وہ اس معاملے پر سخٹ ہاتھ ڈالیں کہ کس نے ہماری گفتگو کو ہیک کیا ہے ، اس پر ہمیں ریاستی سطح پر مضبوط ہاتھ ڈالنا پڑے گا اس کے خلاف مضبوط کارروائی ہونی چاہیے۔سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ سیلاب کے باعث ملک بھر میں تباہی مچی ہوئی ہے ، وفاقی سطح پر 70 ارب روپے کی امداد کا اعلان کیا گیا ہے ، ضرورت کے مطابق اس میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے ،

سیلاب کے دوران کسی صوبے سے صوبائی حکومتوں کی کوئی موثر کارکردگی سامنے نہیں آئی، اس عوام کو ریلیف دینے کی ضرورت ہے، سیاست کرنے اور سیاسی مفادات کے لیے سرکاری وسائل کا استعمال کرنے پر تاریخ آپ کو معاف نہیں کرے گی۔ٹرانس جینڈر ایکٹ کے حوالے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ٹرانس جینڈر کا لفظ خواجہ سرا یا خنثی کیلئے استعمال نہیں کیا جاتا، اس کے لیے انٹرسیکس کا لفظ استعمال ہوتا ہے جب کہ ٹرانس جینڈر کا جنس کی تبدیلی کے علاوہ کوئی مفہوم نہیں ہے ، کچھ چیزیں اور تجاویز ایسی ہیں جن پر طبی لحاظ سے بھی عمل کیا جاسکتا ہے کہ میڈیکل بورڈ بٹھایا جائے،

لیکن کسی شخص کو اس بات پر اعتراض اٹھانے کا حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کہے کہ مجھے کیوں خاتون یا مرد پیدا کیا۔انہوں نے کہا کہ ان معاملات پر سوالات اٹھانا اللہ سے جنگ کرنے کے مترادف ہے، بد قسمتی سے این جو اوز جب کام کرتی ہیں وہ تو 20 سال قبل سے اس کے لیے راہ ہموار کرنا شروع کرتی ہیں، وہ اتنے معصومانہ جملوں اور الفاظ کے ساتھ آپ کے سامنے آتے ہیں اور لابنگ کرتے ہیں کہ بعض اوقات علما سے بھی فتوی لے لیتے ہیں اور اس پر بنیاد بناکر عمارتیں کھڑی کرتے ہیں اور اس کے نتائج کا انہیں کچھ پتا نہیں ہوتا کہ جنہوں نے ابتدا میں ان کی حمایت کی ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں بھی اس طرح کی کچھ خواتین ہوتی ہیں جن کا تعلق مختلف جماعتوں کے ساتھ ہوتا ہے،

ان کا نظریہ ایک ہوتا ہے اور وہ اس کے لیے اپنی پارٹیوں میں لابنگ کرتی ہیں، اس کے لیے حکمت عملی بناتی ہیں کہ جس دن کورم پورا نہ ہو، چھٹی کا دن آنے والا ہو، اکثر ممبران جا چکے ہوں، مذہبی افراد وہاں ہوں تو چپکے سے اس کو وہاں سے نکال لیں، ہمیں تجربہ ہے کہ کس طرح سے اس قسم کی واردات کی جاتی ہے۔مہنگائی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ میں حکومت میں ہوتے ہوئے اس بات پر پریشان ہوں اور جوجنگ ہم لڑ رہے ہیں، وہ میں بیان بھی نہیں کرسکتا، جس نیٹ ورک کے اندر ہمیں جکڑ دیا گیا ہے اس سے نکلنے کے لیے ہمیں قومی یک جہتی کی ضرورت ہے، مہنگائی ایک معروضی مشکل ہے، اس کے تانے بانے ریاست اور اس کے اداروں سے ملتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مہنگائی کے خلاف تحریک کے دوران میں نے مشورہ دیا تھا کہ کل کو آپ کی حکومت آئے گی تو آپ کو بھی اس طرح سے مشکلات کا سامنا ہوگا، میں نے مشورہ دیا تھا کہ مہنگائی کا عنوان آپ کے اپنے گلے نہ پڑ جائے اور وہی آج پھر ہو رہا ہے کہ وہ آج ہمارے اپنے گلے پڑ رہا ہے، ہم کوشش کر رہے ہیں کہ کس طرح سے اس مشکل صورتحال سے نکلا جائے۔سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ ہمیں جس مشکل صورتحال کا سامنا ہے اس کی وجہ ماضی کی ہماری ریاستی سطح کی وہ پالیسیاں ہیں جن میں بہت کمزوریاں رہی ہیں کہ آج ہمیں یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں اور جب ہم یہ سب سنبھال رہے تھے تو کسی کو یہ نہیں بھایا، یہ حکومت قلیل المدت حکومت ہے، اس میں ہمارا حکومت کو مشورہ ہے کہ انہیں بھی قلیل المدت بنیادوں پر منصوبوں پر کام کرنا ہوگا۔نومبر میں ملک کے اہم عہدے پر تقرر سے متعلق سوال پر مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ نومبر والی تبدیلی معمول کے مطابق میرٹ پر ہوگی، آئین کے مطابق وزیراعظم کے اختیار سے ہوگی، عمران خان کھلنڈرا ہے، اس نے ملک کی سیاسی اصطلاحات کو تبدیل کردیا ہے، وہ عوام میں بے معنی اور غیر سنجیدہ بیانات دیتے ہیں اور عوام کا ایک طبقہ اس طرح کی چیزوں کے پیچھے دوڑتا ہے۔

موضوعات:



کالم



کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…