اسلام آبا د(این این آئی)اسلام آباد ہائی کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما وفاقی وزیر احسن اقبال کو نارووال اسپورٹس کمپلیکس ریفرنس میں بری کرنے کا حکم دیدیا۔چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے نارووال اسپورٹس سٹی کمپلیکس کیس میں احسن اقبال کی بریت کی درخواست پر سماعت کی۔
عدالت عالیہ نے نیب کے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ اس میں کرپشن کہاں ہوئی وہ بتائیں؟ آپ کو کیس کب ملا ہے؟۔تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ مجھے 2018 میں یہ کیس ملا تھا اور احسن اقبال کو 2019 کو گرفتار کیا گیا۔اس موقع پر نیب پروسیکیوٹر نہ ہونے کی وجہ سے کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی گئی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک نامعلوم اخبار سے چیئرمین نیب نے اٹھا کر پروسیڈنگ شروع کردیں، سی ڈی ڈبلیو پی کیا ہوتی ہے؟ سی ڈی ڈبلیو پی ہوتی کیا ہے، آپ نے یہ معلوم کیے بغیر ریفرنس دائر کردیا ہے۔انہوں نے تفتیشی افسر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جس سیکریٹری کو آپ نے وعدہ معاف گواہ بنایا اس کا بیان دیکھا ہے، آپ نے پبلک کا پروجیکٹ روک دیا اس کے اخراجات میں اضافے کا سبب کون بنا۔اس پر تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ ہم نے پروجیکٹ کو نہیں روکا تھا، آپ سے پوچھا تھا کہ بتائیں اس کیس میں کرپشن کیا ہے؟۔نیب افسر نے موقف اختیار کیا کہ ایڈیشنل پروسیکیوٹر جنرل آج دستیاب نہیں، وہی دلائل دیں گے جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نہیں، آپ کو التوا نہیں ملے گا۔تفتیشی افسر نے کہا کہ ہم اس کیس کو ترمیمی آرڈیننس کے تحت دیکھ رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ترمیمی آرڈیننس کا تو اس میں تعلق ہی نہیں، آپ کا کام کرپشن کو دیکھنا تھا، آپ کرپشن کو چھوڑ کر اور کاموں میں لگ گئے۔
انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ 18ویں ترمیم کے بعد صوبائی معاملہ تھا، وہاں سے یہ منصوبہ بین الصوبائی رابطہ وزارت کو دے دیا گیا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تو کیا احسن اقبال بین الصوبائی رابطہ کے وزیر تھے؟ تو تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ احسن اقبال وزیر منصوبہ بندی تھے۔تفتیشی افسر سے مکالمے کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ تو پھر احسن اقبال کے پاس کون سا اختیار تھا جس کا غلط استعمال ہوا؟،
یہ آپ کا کام نہیں کس منصوبے سے متعلق پالیسی کیا ہو، نارروال چھوٹا شہر ہے یا بڑا، وہاں کتنا منصوبہ بننا یہ دیکھنا آپ کا کام نہیں۔انہوں نے تفتیشی افسر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو کوئی اتا پتا ہی نہیں حکومت چلتی کیسے ہے، اس میں کرپشن کا کوئی ایک الزام بتا دیں، اگر آپ نقصان کا کہتے ہیں تو آپ نے یہ پروجیکٹ روکا اور نقصان پہنچایا، کیا نقصان ہوا تھا تو پھر اپنے خلاف کیس کرتے، کیا نیب اب دیکھے گی کہ کونسی گورنمنٹ کیا کر رہی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر نقصان کی ہی بات ہے تو وہ تو آپ نے پروجیکٹ رکوا کر نقصان پہنچایا ہے، آپ نے کس اخبار کی خبر پر یہ کیس بنایا تھا؟ جس پر تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ میٹرو واچ کی خبر پر یہ کیس بنایا گیا تھا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج نے استفسار کیا کہ تو یہ میٹرو واچ کہاں کا اخبار ہے اور کیا لکھا تھا، اس کوپڑھیں، کیا چیئرمین نیب نے یہ حقائق چیک کیے تھے کہ یہ درست ہیں یا نہیں، ایک پبلک ویلفیئر پروجیکٹ سے متعلق کرپشن کا کیس اس بنیاد پر شروع کیا؟
آپ یہ بتا دیں کیس کدھر ہے؟۔نیب تفتیشی افسر نے کہا کہ اجازت دیں، جو ابھی قانون ہے اس کے مطابق ہم کیس کو دیکھیں گے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ ابھی کے قانون کو چھوڑ دیں، ہم نے پہلے والے قانون کی بھی تشریح کی تھی، سی ڈی ڈبلیو پی میں 30 لوگ تھے، کیا ان سب نے کرپشن کی؟، نہ آپ کو سی ڈی ڈبلیو پی نہ ہی پی ایس ڈی پی کا پتا ہے۔تفتیشی افسر نے کہا کہ اگر عدالت کچھ وقت دے دے تو بھروانہ صاحب دلائل دیں گے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو بہت وقت دے چکے،
کس نے2000 سے 2010 تک پروجیکٹ روکے رکھا۔نیب افسر نے جواب دیا کہ سر اس وقت مارشل لگا ہوا تھا جس پر عدالت نے کہا کہ پھر آپ ان کو پکڑتے، آپ نے احسن اقبال کو کیوں گرفتار کیا ہے؟ تو تفتیشی افسر نے کہا کہ وعدہ معاف گواہ کا بیان بھی تھا۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا چیئرمین نیب نے تصدیق کی تھی جو کچھ لکھا ہے وہ درست ہے یا نہیں، کیا صرف اس خبر کی بنیاد پر کرپشن کا کیس بنا دیا گیا؟ ایک قابل افسر احد چیمہ بری ہو گیا آپ نے تین سال اس کو جیل میں ڈالے رکھا،
یہ جو اتنی بدنامی آپ کراتے ہیں اسکا ذمہ کون ہے۔انہوں نے کہا کہ نیب نے خود لکھا پہلا نقصان منصوبے کو التوا میں رکھنے سے ہوا، آپ ان کو پکڑتے ناں جنہوں نے 2009 تک منصوبے کو روکا، تفتیشی صاحب آپ کو بہت زیادہ تربیت کی ضرورت ہے، آپ لوگوں کی ساکھ کے ساتھ اس طرح کھیلتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سے کوئی 15 بار پوچھ چکے ہیں کرپشن کا بتائیں، ایک میٹرو واچ کی خبر پر آپ نے پروجیکٹ ہی رکوا دیا؟ کہا گیا کہ انڈیا کی بارڈر سے تھوڑا ہی دور منصوبہ بنا ہے،
کیا آپ کو بھیجتے کہ دیکھیں بارڈر سے کتنا دور ہے؟ اگر بارڈر کے قریب بھی تھا تو اس میں کرپشن کیا تھی؟ حیرت ہے جس تفتیشی افسر نے احسن اقبال کو گرفتار کیا اس کو سی ڈی ڈبلیو پی کا پتا ہی نہیں تھا۔عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے پنجاب حکومت سے انویسٹی گیٹ کیا؟ کیا چیف سیکریٹری پنجاب سے آپ نے پوچھا جس پر نیب کے تفتیشی افسر نے کہا کہ ہمارے پاس ایک لیٹر تھا۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ جب میٹرو واچ کی خبر پر کیس شروع ہوا تو 2009 والے صاحب کو کیوں نہ پکڑا؟،
2009 میں جنہوں نے دوبارہ منصوبہ شروع کیا انہیں پکڑتے نا، 2009 میں تو احسن اقبال پبلک آفس ہولڈر نہیں تھے۔عدالت نے احسن اقبال کی بریت کی درخواست منظور کرتے ہوئے احسن اقبال کو بری کر دیا۔بعدازاں احسن اقبال نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران نیازی اور جسٹس جاوید اقبال نے مسلم لیگ(ن)کے خلاف کردار کشی کی جو مہم چلائی تھی، یہ کیس اسی سلسلے میں بنایا گیا تھا اور جس ریفرنس کی پاداش میں مجھے بھی اڈیالہ جیل میں سزائے موت کے قیدیوں کے سیل میں وقت گزارنا پڑا،
اسلام آباد ہائی کورٹ کے بینچ نے تقریبا ایک گھنٹے لگاتار چیف جسٹس نے نیب سے درجنوں مرتبہ سوال کیا کہ ہمیں بتائیں کہ اس ریفرنس میں احسن اقبال کے خلاف کرپشن کا کیا ثبوت ہے۔انہوں نے کہاکہ چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ اگر کسی چیز میں کرپشن کا شائبہ بھی ہے تو وہ بھی بتائیں اور نیب یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوا کہ اس ریفرنس میں کرپشن کا کوئی الزام نہیں۔انہوں نے کہا کہ میں پاکستانی قوم کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ شخص جو پچھلے کئی سالوں سے اس قوم میں جھوٹ بول بول کر چور ڈاکو کی فلم چلا رہا ہے،
اور اس نے مسلم لیگ(ن)کی قیادت کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے جنہیں اس نے قوم کو گمراہ کرنے کے لیے جواز بنایا۔مسلم لیگ(ن) کے رہنما نے کہا کہ میں عمران خان کو کہنا چاہتا ہوں کہ آ کر دیکھ لو کہ تمہارے جھوٹے الزاموں کی کیا حقیقت ہے، تم نے ہم پر جو بہتان لگائے، آج یہ اسی کا خمیازہ ہے کہ تم سڑکوں پر ذلیل و خوار ہوتے پھر رہے ہو، آج اسی کا نتیجہ ہے کہ تم ذہنی توازن کھو بیٹھے ہو۔انہوں نے اعلان کیا کہ ہم نارووال اسپورٹس سٹی کو مکمل بھی کریں گے، اس کو پاکستان میں نوجوانوں کے لیے کھیلوں کی بہترین اور جدید ترین سہولت بنائیں گے،
اور اسے مکمل کرنے میں جو اضافی اخراجات لگیں گے، اس کی ریکوری عمران نیازی اور نیب سے کی جائے گی۔انہوں نے کہاکہ عمران خان نے جھوٹ کو سچ نہیں بنا سکا، منصوبے کا نقصان کیا، ہماری کردار کشی کی، ہمارے اہلخانہ اور دوستوں کو اذیت سے گزارا لیکن میں نارووال اور اپنے حلقوں کے عوام کا شکرگزار جنہوں نے اس کردار کشی کو مسترد کیا اور پہلے سے زیادہ یکجہتی کے ساتھ میرے ساتھ کھڑے رہے۔خیال رہے کہ نارووال اسپورٹس سٹی اسکینڈل میں نیب نے 23 دسمبر 2019 کو احسن اقبال کو گرفتار کیا گیا تھا، وہ 2 ماہ سے زائد عرصے حراست میں رہے تھے،
اور پھر رواں سال اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں 25 فروری کو ضمانت دی تھی۔بعد ازاں 9 ماہ بعد نومبر کے مہینے میں نیب نے نارووال اسپورٹس سٹی کمپلیکس میں احسن اقبال اور دیگر کے خلاف ریفرنس دائر کیا تھا۔نیب ریفرنس کے مطابق احسن اقبال اور دیگر نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا، غیر قانونی طور پر منصوبے کے دائرہ کار کو 3 کروڑ 47 لاکھ 50 ہزار سے 3 ارب روپے تک بڑھا دیا، مزید یہ کہ منصوبے کا ابتدائی خیال 1999 میں احسن اقبال کی ہدایت پر بغیر کسی فزبلٹی اسٹڈی کے پیش کیا گیا تھا۔ریفرنس کے مطابق 1999 میں جب سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی
(سی ڈی ڈبلیو پی) کی سربراہی احسن اقبال کررہے تھے تو 3 کروڑ 47 لاکھ 50 ہزار روپے کی لاگت پر نارووال منصوبے کی ابتدائی منطوری دی گئی تھی، اسی سال ان کی پاکستان اسپورٹس بورڈ (پی ایس بی) اور نیشنل انجینیئرنگ سروس آف پاکستان کو دی جانے والی غیر قانونی ہدایت پر منصوبے کی لاگت کو 9 کروڑ 75 لاکھ 20 ہزار روپے تک بڑھ گئی تھی۔احسن اقبال نے خود منصوبے کے لیے زمین کا انتخاب کیا تھا اور مخصوص خصرہ (پلاٹ) نمبرز کو پی ایس بی کے حوالے کیا تاکہ وہ اس کا انتخاب کرے، 1999 میں پاکستان اسپورٹس بورڈ نے وزارت ترقی و منصوبہ بندی کی ہدایت پر اس منصوبے کو اس بنیاد پر ملتوی کردیا تھا کہ اس منصوبے میں معاشی ضرورت کے حوالے سے وہ وزن نہیں تھا۔
بعد ازاں 2009 میں یہ منصوبہ دوبارہ شروع کیا گیا تھا اور تب اس کی لاگت 73 کروڑ 20 لاکھ روپے منظور کی گئی تاہم 18 ویں ترمیم کے بعد 2011 میں منصوبے کو حکومت پنجاب کے حوالے کردیا گیا تھا۔نیب کے مطابق جب احسن اقبال نے 2013 میں وزیر ترقی و منصوبہ بندی کا چارج سنبھالا تو انہوں نے غیرقانونی طور پر اپنی وزارت کے حکام کو ہدایت کی تھی کہ وہ این ایس سی منصوبے کو پی ایس ڈی پی 14-2013 میں شامل کریں، یہ منصوبہ پی ایس ڈی پی 14-2013 کے مسودے میں شامل نہیں تھا کیونکہ یہ ایک منحرف منصوبہ تھا اور حکومت پنجاب کے سالانہ ترقیاتی پروگرام 14-2013 میں بھی اسے ظاہر کیا گیا تھا۔رواں سال اپریل میں نیب ریفرنس کالعدم قرار دینے کی درخواست مسترد ہونے کے فیصلے کے بعد احسن اقبال نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا تھا۔