لاہور( این این آئی)وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سیلاب زدگان کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے ۔ مفتاح اسماعیل نے گزشتہ روز لاہور چیمبر میں خطاب کیا اور کہا کہ سیلاب سے وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی ہے ، جتنا نقصان ہو چکا ہے حکومت تنہا اس کی تلافی نہیں کر سکتی ۔ وزیر خزانہ سیلاب زدگان کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے
اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ۔ ان کے ساتھ والی نشست پر بیٹھے لاہور چیمبر کے صدر نعمان کبیر نے انہیں پانی پلایا ۔وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ سیلاب کے باعث اتنا ہو چکا ہے کہ حکومت تنہا اس کی تلافی نہیں کر سکتی ، آئندہ دو تین سال پاکستان کی جی ڈی پی دبائو کا شکار رہے گی ،این ایف سی کمیشن تشکیل پا چکا ہے لیکن ابھی کام کا آغاز نہیں کیا جب وزیر اعظم شہباز شریف اس کا اجلاس طلب کریں گے تو ہم کام شروع کر دیں گے،ایکسپورٹرز کو سو فیصد مراعات دینے کا فیصلہ کیا ہے ان کی ہر قسم کی ایل سی کھلے گی تاہم امپورٹ کی ایل سی فی الحال اس پر پابندی عائد ہے ،آٹو موبیل، ہوم اپلائنسز اور موبائل سیکٹر کو ان کے کوٹے کا پچاس فیصد امپورٹ کرنے کی اجازت دی ہے ،خام پراسسڈ چکن پر 17فیصدجی ایس ٹی بر قرار رہے گا جو چیز پیکنگ میں چلی جائے گی اس پر جی ایس ٹی لازمی وصول کیا جائے گا ،اگر ہم آئی ایم ایف کے پاس نہ جاتے تو ملک دیوالیہ ہوجاتا،حکومت سنبھالی تو ملک کے حالات کا اندازہ تھا، ہم پی ٹی آئی کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ ہمیں تو حالات کا اندازہ ہی نہیں تھا،بجلی کے ریٹ بہت زیادہ ہیں اس بات کا حکومت کو احساس ہے لیکن سبسڈی ختم کرنا اب بہت ضروری ہوگیا ہے ،چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور گورنر سٹیٹ بینک کو ہدایت کی ہے وہ کاروبار ماحول کی بہتری کے لیے لاہور چیمبر کی تجاویز کو زیر غور لائیں اور جلد ہی ملاقاتیں بھی کریں،
ملک کی کاروباری برادری سے اپیل ہے کہ سیلاب زدگان کی بڑھ چڑھ کر مدد کریں،کاروباری برادری اپنی سالانہ آمدن کا ایک فیصد سیلاب زدگان کی مدد کیلئے وزیر اعظم ریلیف میں دے۔ وہ گزشتہ روز لاہور چیمبر میں اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہاکہ جب اپریل میں برسراقتدار آئے تو ڈیفالٹ کا شدید خطرہ منڈلا رہا تھا، زرمبادلہ کے ذخائر ساڑھے دس ارب ڈالر تھے
جبکہ قرضوں کی ادائیگی اور دیگر اخراجات کے لیے مجموعی طور پر چھتیں ارب ڈالر درکار تھے لہذا یہ خطرہ ٹالنے کے لیے زمینی حقائق پر مبنی سخت فیصلے ناگزیر تھے۔ کہ اگر کسی ملک کے پاس تین ماہ کے زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہوں تو کوئی بھی عالمی مالیاتی ادارہ اسے کو قرض نہیں دیتا ۔ انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر پٹرول، گیس، فرنس آئل اور کوئلہ کی قیمتیں کئی گنا بڑھیں، مہنگی اشیاء خرید کر سستی نہیں دے سکتے،
سبسڈیز کا خاتمہ آئی ایم ایف کی شرط تھی، وزیراعظم کو پہلے ہی بتادیا تھا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانا ہونگی، اس وقت ڈیڑھ پر ساڑھے سات روپے جبکہ پٹرول پر ساڑھے سینتیس روپے ٹیکس ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا مجبوری تھی، پاکستان کی برآمدات31ارب ڈالر جبکہ درآمدات 80ارب ڈالر ہیں، کوئی بھی ملک اتنے بڑے تجارتی خسارے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے کہا کہ 2013ء سے 2018ء کے دوران نواز شریف حکومت نے بجلی کی پیداوار دوگنی کردی مگر بعد کی حکومت نے ایکسپورٹ اور روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی دوتہائی برآمدات ٹیکسٹائل پر مشتمل ہیں، دیگر شعبوں کی برآمدات بڑھانے کی بھی ضرورت ہے۔ نواز حکومت نے ٹیکس ٹو جی پی کی شرح 11.1فیصد پر چھوڑی تھی جو پی ٹی آئی حکومت میں کم ہوا،
اس وقت یہ ساڑھے نو فیصد کے قریب ہے، اتنے کم ٹیکس ٹو جی ڈی پی اور ایکسپورٹ ٹو جی ڈی پی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اگر ان دونوں کی شرح پندرہ فیصد ہوجائے تو حکومت کو امداد مانگنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ جامشورو پاور پلانٹ سے ایک یونٹ بجلی 59روپے کی بن رہی ہے جو صارفین تک پہنچنے 78روپے کی پڑتی ہے۔ صارفین کو فیول اور ایل این جی کی کاسٹ ٹرانسفر کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب کی وجہ تباہی کا تخمینہ ساڑھے اٹھارہ ارب ڈالر ہے، 6500کلومیٹر سڑکیں، 246پل، سترہ لاکھ مکان تباہ ہوئے۔ دس لاکھ جانور ہلاک ہوئے اور 1300لوگ شہید ہوئے۔ سندھ کی پوری کاٹن تبا ہ ہوئی جو امپورٹ کرنا پڑے گی جبکہ چاول کی دو تہائی فصل بھی تباہ ہوگئی ہے۔