اسلام آباد ( آن لائن) پی ڈی ایم کے رہنما ڈٹ گئے، عدالت عظمی کا فیصلہ مسترد کرتے ہوئے آرٹیکل 63اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ بھجوانے کا مطالبہ کر دیا۔سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ حکومت مدت پوری کرے گی، عمران کو
شکست دیں گے۔پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز نے کہا کہ سیاسی جماعتوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر تشویش کا اظہارکیا ہے ، عدالتی اصلاحات کی قرارداد کاخیر مقدم کرتے ہیں۔پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس ہوا، نوازشریف، شہبازشریف، محمود خان اچکزئی ویڈیولنک کے ذریعے شریک ہوئے، اجلاس میں ملکی صورتحال پربڑی سنجیدگی کے ساتھ غورکیا گیا، پی ڈی ایم کا ابھی اجلاس جاری ہے اورچند روزمزید جاری رہے گا، الیکشن اپنے وقت پرہوں گے، حکومت اپنی مدت پوری کرے گی، عمران خان کے گزشتہ ساڑھے تین سالوں کا گند ایک سال میں صاف کرنا مشکل ہے، ہم عمران خان کے جھوٹے بیانیے کوشکست دیں گے، یہ قوم کے جوانوں کوگمراہ کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی ساکھ بچانا ہمارے لیے چیلنج ہے،ہم ملک کے مستقبل کوبچائیں گے، حالیہ عدالتی فیصلے سے شدید سیاسی بحران پیدا ہوا ہے جومعاشی بحران کا سبب بن رہا ہے۔ بارایسوسی ایشنز، میڈیا، سول سوسائٹی نے عدالت کے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا، آرٹیکل63اے کی تشریح میں الگ الگ معیارسامنے آیا ہے، صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ کوبھجوایا جائے تاکہ فل کورٹ بنا کرتشریح حاصل کی جاسکے۔پی ڈی ایم سربراہ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا گیا ہے
فارن فنڈنگ کیس کا فوری فیصلہ سنایا جائے، الیکشن کمیشن آئین وقانون کے مطابق فیصلہ سنائے، سٹیٹ بینک، سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ سے تمام جرائم ثابت ہوچکے ہیں، پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن میں اپنے اکاؤنٹس چھپائے، اسرائیل،بھارت کے شہریوں سے ممنوعہ فنڈنگ لی گئیں، اجلاس قراردیتا ہے قانون اپنا راستہ لے، چیف الیکشن کمشنرنے پراسرارخاموشی کی چادر اوڑھی ہوئی ہے، اس پرآنکھیں بند کرنا قومی سلامتی کے ساتھ کھیلنے
کے مترادف ہے۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے افراتفری اور سیاسی بحران پیدا ہوا، سیاسی جماعتوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر تشویش کا اظہارکیا ہے، آرٹیکل 63اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ بھجوایا جائے۔ سوشل میڈیا پریہ جھوٹی خبریں پھیلاتے ہیں، ان کے آگے پیچھے چھوٹی، موٹی تتلیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے، حکومتی سطح پر کچھ فیصلے ہوئے ایک دودن میں سامنے آجائیں،
یہ جرم کا مگرمچھ ہے اب اس کے گریبان میں ہاتھ پڑے گا، کبھی کہتا ہے امریکا نے ہٹایا امریکا توتمہیں لایا تھا۔ معاشی بحران بڑا چیلنج نہیں معیشت کو دوبارہ اٹھانا چیلنج ہے، اب بھی بیورو کریسی میں پرانے عناصر موجود ہے جو فیصلوں کو روک رہے ہیں، اگلے اجلاس میں حکومتی اتحاد کے اراکین شامل ہوں گے، ملکی معیشت سے منسلک ادارے ہمیں منگل والے دن بریفنگ دیں گے، عمران خان کا بیانیہ جھوٹ بولنا ہے۔ مسلم لیگ ن کی نائب
صدر مریم نواز نے کہا کہ یکطرفہ اور ناانصافی پر مبنی فیصلے کی وجہ سے فل کورٹ نہیں بنا، لاڈلے کو نوازانہ تھا اس لیے فل کورٹ نہیں بنا، انصاف کا قتل ہوا ہے، اگرنیت میں کوئی خرابی نہ ہوتی تو فل کورٹ بنانے میں کوئی آڑ نہیں تھی، اس فیصلے نے عدالت کے پچھلے فیصلے کو خود ہی اڑا کر رکھ دیا، مجھے پورا یقین تھا فل کورٹ نہیں بنے گا۔ اگر انجانے میں جج صاحب سے غلطی ہوگئی تو تصیح کرلیں، اگرغلطی کی تو لاڈلے کے حق میں،
اگرتصیح کی تو لاڈلے کے حق میں کی، ہمارے 25 اورچودھری شجاعت کے 10 ممبران بھی عمران کی جھولی میں گئے، اگر غلطی کی تصحیح کرنا تھی تو اقامہ کی غلطی کو کر لیتے، ثاقب نثارنے عمران کوصادق اورامین کا سرٹیفیکیٹ دیا اس کی تصیح کرتے۔ انہوں نے کہا کہ جھوٹے، بے ایمان شخص کو صادق اور امین بنا کر مسلط رکھا، سپریم جوڈیشل کونسل میں آج سابق جج شوکت عزیز صدیقی کو نہیں سنا جا رہا، دور بین لگا کر دیکھتے رہے
نوازشریف کے خلاف ثبوت نہیں ملے، میرے والد کے ساتھ زیادتی در زیادتی کررہے ہیں۔ لاڈلے کی باری آئی تو چند ہفتوں بعد کہہ دیا سب کچھ پارلیمانی پارٹی کا سربراہ ہوتا ہے، میں اور مولانا ادارے کی توہین نہیں کر سکتے، جب ایسے فیصلے آئے تو اندرسے توہین ہوتی ہے، ادارے کا کام آئین کی تشریح کرنا ہے، قانون سازی نہیں، اگرآپ نے قانون سازی کرنی ہے تو پھر اسمبلیوں کو تالا لگادیں، پرویزالہیٰ ہمیشہ عدالتی وزیراعلیٰ ہی کہلوائیں گے،
حمزہ شہبازسے وزارت چھین کر پلیٹ میں رکھ کردی گئی۔ آئین کی تشریح چہروں کودیکھ کربدل دیتے ہیں، یہ ہے آپ کا انصاف؟ آئین کوعوامی منتخب نمائندوں نے بنایا، جان بوجھ کرمتنازع 3 رکنی بنچ کولایا جاتا ہے، اس قسم کے فیصلے سرجھکا کر تسلیم نہیں کرسکتے، اگر(ن)لیگ کا ڈپٹی سپیکر ہو تو اسے عدالت میں کھڑا کیا جاتا ہے، ڈپٹی سپیکر عمران خان کا ہو تو اسے بلایا نہیں جاتا، یہ عدالتی ناانصافی ہے۔ اصل فیصلہ عوام اور عوامی نمائیندے
کریں گے۔لیگی نائب صدر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایک ہی چیز فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ ہے، کیس کو 8 سال ہو گئے ہیں، نوازشریف اورمیں جج بشیر کی عدالت میں روزانہ پیش ہوتے تھے، بھارتی، اسرائیلی شہریوں سے ممنوعہ فنڈنگ لی گئی، اگر مولانا،نوازشریف، مریم نواز نے اسرایئل،بھارت سے ممنوعہ فنڈنگ لی ہوتی تو کیا ہمارے ساتھ یہ سلوک ہوتا؟ منتخب وزیراعظم کواقامے کی بنیاد پرنکال دیا گیا۔ ہر سال الیکشن کمیشن میں جھوٹے
کاغذات جمع کراتا رہا، خفیہ طریقے سے ملازمین کے اکاؤنٹ میں پیسے منگواتا رہا۔پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کا اعلامیہ بھی جاری کر دیا گیا، جس میں کہا گیا ہے کہ فل کورٹ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس بھجوایا جائے، دستور پاکستان 1973 میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے اداروں کو ریاستی اختیارات تفویض کئے گئے ہیں۔ آئین میں واضح طور ہر ادارے کے ذمہ داری اور اس کا دائرہ کارمتعین ہے۔ کوئی ادارہ
دستور کے تحت کسی دوسرے کے کام میں مداخلت نہیں کرسکتا، سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے شدید ابہام ، افراتفری اور بحران پیدا ہوا ہے۔ فیصلہ دینے والے بنچ کے دو ججز نے اکثریتی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے فیصلے کو آئین میں اضافہ قرار دیا، ملک کی نمائندہ سیاسی و جمہوری جماعتوں نے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے میں تشریح کے دستوری حق سے تجاوز کیاگیا ہے، فیصلے سے ملک میں شدیدسیاسی عدم استحکام نے جنم لیا ہے۔