اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سابق چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ر) مزمل حسین کی مبینہ بد انتظامی کی وجہ سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہونے کی خبر مقامی انگریزی اخبار نے 2018ء میں شائع کی تھی لیکن نیب نے عمران خان کے جانے کے بعد اسے کرپشن کیس بنایا ہے۔روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی شائع خبر کے مطابق نیب کا تشخص ایک ایسے ادارے کے
طور پر مشہور ہے جو بیوروکریسی کے ارکان، کاروباری افراد اور سیاست دانوں کو تو ڈراتا دھمکاتا رہا ہے لیکن ادارہ اُس خبر پر خاموش رہا جوچند سال قبل عمران خان کی حکومت میں شایع کیا تھا۔ اب بیورو نے چیئرمین واپڈا جنرل مزمل کو طلب کر لیا ہے۔ یہ کرپشن یا کمیشن لینے کا کیس نہیں تھا بلکہ تربیلا ڈیم کے ٹنل نمبر چار کے ٹنل نمبر چار کے قبل از وقت ہی آپریشن کا معاملہ تھا جس سے مبینہ طور پر کئی نقصانات ہوئے۔ اخبار نے خبر دی تھی کہ مارچ 2018ء میں اُس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو خوش کرنے کیلئے تربیلا کے ٹنل فور کا قبل از وقت افتتاح کر دیا گیا تھا جس سے تین ماہ کے فلڈنگ سیزن کے دوران 25 ارب روپے کے آپریشنل نقصانات ہوئے تھے۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ 850؍ ملین ڈالرز مالیت کے تربیلا فور پروجیکٹ کا واپڈا نے مارچ میں افتتاح کر دیا حالانکہ جرمن انجینئرنگ کنسلٹنٹ وائتھ (Voith) نے منع کیا تھا کہ پانی کا ریزروائر (ذخیرہ) انتہائی نچلی سطح (ڈیڈ لیول) پر ہے اسلئے ٹنل نمبر چار کے ٹربائن سے بجلی پیدا نہ کی جائے۔
تاہم، واپڈا نے اس کے باوجود پروجیکٹ کا افتتاح کیا اور اُس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر قیادت ہونے والی افتتاحی تقریب کے دوران چند گھنٹوں کیلئے ٹربائن چالو کر دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کیچڑ اور مٹی کی بھاری مقدار نے ٹنل اور ٹربائن کو بھر دیا اور اس طرح باقی تین ٹربائن بھی چلائے جانے کے قابل نہ رہے۔
چونکہ مارچ کے مہینے میں تربیلا ڈیم میں پانی کا ذخیرہ انتہائی نچلی سطح (ڈیڈ لیول) پر تھا اسلئے فلشنگ اِن لیٹ میں جو پانی دستیاب تھا وہ اپنے ساتھ ٹربائن میں کیچڑ بھی ساتھ لایا۔ نتیجہ روزانہ 280؍ ملین روپے (28؍ کروڑ روپے) کی صورت میں سامنے آیا۔ سابق وزیراعظم عمران خان نےرپورٹ پر واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ایم (پی)، ایڈوائزر پروجیکٹس (واپڈا)، سی ای (او اینڈ ایم) اور پروجیکٹ ڈائریکٹر ٹی فور ایچ پی پی کے بیانات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ افتتاح کی تاریخ ان سے مشاورت کے بغیر طے کی گئی اور یہ کام واپڈا کے اتھارٹی لیول پر نہیں بلکہ یہ کام چیئرمین واپڈا کی سطح پر ہوا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کو پیش کی جانے والی آئی سی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کمیٹی کے تمام ارکان اس بات پر متفق ہیں کہ پروجیکٹ کے قبل از وقت افتتاح کی وجہ سے 753.7؍ ملین ڈالرز کا نقصان ہوا۔ یہ خبر شائع ہونے سے قبل چیئرمین واپڈا سے ان کا موقف لیا گیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ انوسٹی گیشن رپورٹ حقائق پر مبنی نہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ افتتاح کاشیڈول خالصتاً جون 2017 میں کمرشل کو آرڈینیٹڈ شیڈول کے تحت مقرر کیا گیا تھا اور اس شیڈول پر تین اسٹیک ہولڈرز (آجر، کنسلٹنٹس اور ٹھیکیدار) متفق تھے۔ ریٹائرڈ جرنیل نے کہا تھا کہ کمرشل شیڈول واپڈا اتھارٹی نے منظور کیا تھا جو چیئرمین اور ممبران پر مشتمل تھی۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ مارچ مین پروجیکٹ کو کمیشن کرنا خالصتاً ورلڈ بینک کی گائیڈلائنز کے مطابق رہا۔ جنرل مزمل، جو اپنے عہدے سے حال ہی میں ریٹائر ہوئے ہیں، نے کہا تھا کہ ورلڈ بینک چاہتا تھا کہ یونٹ مارچ یا اپریل 2018 تک تیار ہو جائے تاکہ اس کے ثمرات اسی سال مئی اور جون تک ملنا شروع ہوں۔
انوسٹی گیشن رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ، یونٹ نمبر 17؍ کی فعالیت (آپریشن) کی تاریخ کنٹریکٹ میں شامل فریقین (آجر یعنی کہ واپڈا، کنسلٹنٹس یعنی کہ ٹی فور سی جے وی اور ٹھیکے دار یعنی کہ سول اور ای ایم کنٹریکٹرز) کے ساتھ مشاورتی عمل کے بعد مقرر کی جانا تھی۔ نتیجتاً یونٹ نمبر 17؍ کا افتتاح 10؍ مارچ 2018ء کو کیا گیا۔
مذکورہ بالا صورتحال کے باوجود، ایم (پی)، ایڈوائزر پروجیکٹس واپڈا، سی ای (او اینڈ ایم) اور ٹی فور ایچ پی پی کے پی ڈی کے بیانات سے یہ طے ہوتا ہے کہ افتتاح کی تاریخ ان کے ساتھ مشاورت کے بغیر مقرر کی گئی نہ کہ واپڈا کی مجاز سطح پر بلکہ یہ کام چیئرمین واپڈا کی سطح پر کیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ افتتاح کے موقع پر واپڈا کی جانب سے اُس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے بولنے کے لئے یہ نکات جمع کرائے تھے کہ تربیلا فور توسیعی ہائیڈرو پاور منصوبہ حکومت کی جانب سے حاصل کیا جانے والا ایک اور تاریخی سنگ میل ہے جس سے نیشنل گرڈ میں 1410 میگاواٹ بجلی شامل ہوگی۔
اس پروجیکٹ کو بروقت اور مقررہ اخراجات میں مکمل کرنا حکومت کی ترجیح رہی ہے، میں واپڈا اسٹاف، پروجیکٹ کنسلٹنٹس، ٹھیکے داروں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کی ان تھک محنت کی وجہ سے یہ پروجیکٹ پایہ تکمیل تک پہنچا ہے۔ انوسٹی گیشن کمیٹی نے متقفہ طور پر یہ بات کہی تھی کہ قومی خزانے کو 753.7 ملین ڈالرز کا نقصان ہوا ہے۔
کمیٹی نے وزیراعظم سے کہا تھا کہ مندرجہ ذیل اقدمات کیے جائیں: ۱) آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے کہا جائے کہ وہ 60؍ روز میں T4 HP کی جامع کارکردگی کا آڈٹ کر کے پیش کریں جس میں پروجیکٹ کی مجموعی کارکردگی کا آڈٹ، خصوصی معاملات اور ہونے والے نقصانات کی تفصیلات، ذمہ دار افراد / اداروں / کمپنیوں کا تعین اور مذکورہ بالا سے وابستہ کوئی ذیلی یا متعلقہ معاملے کا احاطہ شامل ہو۔ ۲) جامع کارکردگی کی آڈٹ رپورٹ کی روشنی میں ایف آئی اے یا نیب کے ذریعے معاملے کی فوجداری انکوائری کرانے کا فیصلہ کیا جائے۔