اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک )سینئر صحافی ، کالم نگار اور اینکر سلیم صافی نے روزنامہ جنگ میں انکشافات سے بھرپور کالم تحریر کیا ہے ،سلیم صافی لکھتے ہیں کہ عمران خان نے بھی میرے خلاف ہر حربہ استعمال کیا۔ جب سے سوشل میڈیا آیا ہے وہ میری ٹرولنگ کرواتا رہا جس میں سب سے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ میری عظیم ماں کو گالیاں دلوائی گئیں۔
پھر جب ان کے ہاتھ حکومت آئی تو انہوں نے ہر طرح سے میرے خلاف حکومتی طاقت استعمال کی لیکن رب ذوالجلال کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے استقامت دی۔ میری خوش قسمتی یا بدقسمتی تھی کہ مجھے دور طالب علمی میں جب عمران خان سیاست کے میدان میں آرہے تھے، ان کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور اس کے نتیجے میں میں نے کچھ نتائج اخذ کئے۔مثلا لوگ انہیں سیدھا سادہ اور کھرا انسان سمجھتے رہے لیکن جب وہ سیاست شروع کررہے تھے تومجھے اس وقت اندازہ ہوا کہ وہ انتہائی شاطر اور چالاک انسان ہیں۔ لوگوں کے سامنے شوکت خانم کو بنیاد بنا کر یہ باور کراتے رہے کہ وہ نہایت صاحب دل انسان ہیں لیکن مجھے اس وقت یقین ہوگیا تھا کہ وہ سراپا دماغ ہیں اور ان کے پاس دل نہیں۔انہوں نے لوگوں کو باور کرایا کہ وہ نہایت غنی اور قناعت پسند ہیں لیکن مجھے اس وقت سے ایمان کی حد تک یقین ہوگیا تھا کہ شہرت، طاقت اور اقتدار ہی ان کی منزل ہے۔
انہوں نے اپنے آپ کو بہادر مشہور کررکھا ہے لیکن میری رائے یہ ہے کہ بہادر شخص سفاک اور مخالفین کے بارے میں بے رحم نہیں ہوسکتا۔میری سوچ یہ ہے کہ اگر ایک انسان اپنے خاندان اور اپنے دوستوں کا وفادار نہیں تو آگے جاکر اپنی قوم اور ملک سے بھی وفا نہیں نبھاسکتا۔
کیونکہ انسان وفادار ہوتا ہے یا بے وفا اور میں دیکھتا رہا کہ وہ کسی کے ساتھ وفاداری نہیں نبھاتے۔ ایک اور صفت میں نے ان کے ہاں محسن کشی کی محسوس کی تھی جس کا نظارہ ان دنوں سب کررہے ہیں کہ جس ادارے نے انکی پارٹی کو ایک فین کلب سے اٹھاکر اقتدار تک پہنچایا اور ان کی خاطر ہر طرح کی بدنامی مول لی، وہ آج اس ادارے کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔
کالم کااختتام اس ایک واقعے پر کرنا چاہوں گا کہ جب عمران خان سیاسی پارٹی بنارہے تھے تو ماڈل ٹائون کے ای بلاک کے ایک گھر میں ایک تحریری دستاویز پر دستخط ہوئے جس میں فیصلہ ہوا کہ جنرل حمید گل اور عمران خان میں سے ایک چیئرمین اور دوسرے صدر ہوں گے۔
اس کے گواہوں میں ڈاکٹر فاروق خان اور منصور صدیقی اس دنیا میں موجود نہیں لیکن دو گواہ یعنی محمد علی درانی اور جاوید احمد غامدی زندہ ہیں۔اس معاہدے کی کاپی ایک غیرسیاسی مگر ایماندار انسان کے پاس موجود ہے جبکہ یہ سب کچھ میری نظروں کے سامنے ہوا تھا۔
معاہدے کے بعد عمران خان لندن اپنے سسرال گئے اور جب واپس آئے تو انہوں نے باقی لوگوں سے کہا کہ جنرل حمید گل کو ساتھ نہیں رکھنا اور پارٹی ایسے وقت میں انائوننس کرنی ہے جب وہ ملک سے باہر ہوں۔چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور جنرل حمید گل مرحوم اور دیگر لوگ حیران پریشان رہ گئے۔
آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں کہ کس کے کہنے پر انہوں نے جنرل حمید گل کو یہ دھوکہ دیا۔ان کی یہ چالبازی اور بے وفائی دیکھ کر مجھے شدید ذہنی جھٹکا لگا لیکن ساتھ یہ بھی اندازہ ہوگیا کہ ان کی سیاست کی ڈوریں کہاں سے ہل رہی ہیں۔