اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے وفاقی حکومت کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) کے قوانین میں حالیہ تبدیلیوں کو ایک ہفتے کے اندر قانون کے دائرے میں لانے کی ہدایت کرتے ہوئے خبردار کیا کہ ہدایت پر عمل نہ کیے جانے کی صورت میں حکم جاری کیا جائے گا۔
جمعہ کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ہائی پروفائل مقدمات میں حکومتی مداخلت پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی ۔ بینچ میں چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال ،جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے ۔ دور ان سماعت ڈی جی ایف آئی اے، اٹارنی جنرل اور پراسیکیوٹر نیب عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ہدایت دی کہ حکومت ترمیم کو قانون کے دائرے میں لانے کیلئے مناسب اقدامات کرے، ہم فی الوقت انتظامی اختیارات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف سے ای سی ایل سے نام نکالنے کے طریقہ کار سے متعلق استفسار کیا کہ ای سی ایل میں نام ڈالنے کے لئے کون کہتا ہے، کبھی کسی سے پوچھا ہے؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہمارے پاس ایک خط آتا ہے کہ متعلقہ شخص سے تفتیش جاری ہے اس لئے نام ای سی میں ڈال دیں، بیرون ملک سفر اور آزادنہ نقل وحرکت ہر شہری کا آئینی حق ہے، کسی فرد کے خلاف نیب میں تحقیقات یا کسی ایجنسی کے تحقیقات کے سبب نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا جاسکتا،اتارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت کسی شخص کا نام ای سی ایل میں ڈالنے سے پہلے نقل و حرکت کی آزادی اور اس پر لگائے گئے الزامات کا جائزہ لیتی ہے،
حکومت نے تمام قانونی تقاضے پورے کرکے ای سی ایل رولز میں ترمیم کی، وفاقی کابینہ نے ای سی ایل رولز ترمیم میں لکھا کہ انکا اطلاق ماضی سے ہوگا، ای سی ایل رولز میں ترمیم وفاقی حکومت کی صوابدید ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی کابینہ میں شامل افراد کے نام ای سی ایل سے نکالنے کی وجہ آزادنہ حکومتی امور کی انجام دہی ہے، کسی قانون میں نہیں لکھا کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کے سبب نیب سے مشاورت ضروری ہے۔
چیف جسٹس نے کہا ہمیں معلوم ہے آپ نے ایک ایسے فرد کو بھی چھوڑ دیا ہے جسے ہم نے قید میں رکھنے کا حکم دیا تھا، جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس کے خلاف ریفرنس 2018 کا تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا آرڈر 2021 کا تھا، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آپ کے حکم پر عملدرآمد کیا گیا، اس کی رہائی ریفرنس کے فیصلے کے نتیجے میں ہوئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر نیب یا کوئی تحقیقاتی ادارہ کسی کے خلاف تحقیقات کر رہا ہو تو
آپ کو اس ادارے سے مشاورت کرکے ایسی ایل سے نام نکالنا چاہیے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ چیئرمین نیب کی ہدایت پر نام ای سی ایل میں شامل کئے جاتے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کا مطلب ہے نیب سوچ سمجھ کر ہی نام ای سی ایل میں ڈالنے کا کہتا ہے، کرپشن سنگین جرم ہے اور نیب کا ہر کیس ہی کرپشن کا ہوتا ہے، نیب ہر ملزم کا نام ای سی ایل میں شامل نہیں کرواتا، نیب کے مطابق اربوں روپے کرپشن کے ملزمان کے نام ای
سی ایل سے نکالے گئے۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نیب کو ضرورت ہو تو نام دوبارہ شامل کرنے کے لیے رجوع کر سکتا ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کو نام نکالنے کا پتا ہوگا تو ہی رجوع کر سکے گا، ایسے ملزم کا نام بھی ای سی ایل سے نکالا گیا جو سپریم کورٹ نے شامل کروایا تھا۔سماعت کے دوران جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بہتر ہوتا کہ ہر کیس کا الگ جائزہ لے کر نام نکالے جاتے۔چیف جسٹس نے
ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت ایگزیکٹو کے فنکشنز میں مداخلت نہیں کررہے، ایک وزیر فنانشل معاملات پر کام کررہا ہے، ہم آپ کو کچھ وقت دیتے ، ا?پ قانون کے مطابق عمل کریں، ہم آپ کو 2 ہفتوں کا وقت دیتے ہیں، ہم چاہتے ہیں قانون پر عملدرآمد کر کے سب سے یکساں انصاف ہو۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ای سی ایل رولز میں ترمیم کا اطلاق ماضی سے کیوں کیا گیا؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ماضی سے ترمیم کے
اطلاق کا مقصد مخصوص افراد کیلئے نہیں تھا، اس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ترمیم کرنے والوں کے اگر رشتہ داروں یا دوستوں کو فائدہ ہورہا تو کیا ایسی ترمیم ہونی چاہیے؟جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دئیے کہ آپ نے لکھا ہے کہ ملک سے باہر جانا ایک بنیادی حق ہے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہم نے کہا ہے کہ آزادانہ نقل و حرکت ایک شہری کا بنیادی حق ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے کی رپورٹ مطابق
تبدیلیاں کی گئی ہیں۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ملزمان کے نام ای سی ایل سے نکالنے کی کیا جلدی تھی؟ ای سی ایل رولز میں ترمیم کا اطلاق گزشتہ تاریخوں سے ہونے کا ذکر نہیں، ای سی ایل میں شامل وزرا نام نکالنے کا فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ سعد رفیق کا نام عدالت نے شامل کرایا تھا، اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سعد رفیق کابینہ اجلاس میں موجود نہیں تھے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس
دیے کہ ریکارڈ کے مطابق سعد رفیق نے ای سی ایل رولز کی منظوری دی ہے، کیا وزرا کو خود معاملے سے الگ نہیں ہونا چاہیے تھا؟ ذاتی مفاد کیلئے کوئی کیسے سرکاری فیصلے کر سکتا ہے؟ کیا وزرا کیلئے ذاتی کیس سے متعلق کوئی ضابطہ اخلاق ہے؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ضابطہ اخلاق کے تحت ذاتی نوعیت کا کیس وزیر کے پاس نہیں جاتا۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا گیا؟اٹارنی جنرل نے
کہا کہ اگر وزیر اعظم کا نام ای سی ایل میں ہو تو کیا کابینہ فیصلہ ہی نہیں کرے گی؟جسٹس منیب اختر نے کہا کہ مناسب ہوگا اگر کابینہ ہی ایسی بنے جس کا نام ای سی ایل پر نہ ہو۔چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کو سزا دینے کے لیے کارروائی نہیں کر رہے۔عدالت کی جانب سے طلب کیے گئے ڈی جی ایف آئی اے طاہر رائے نے سماعت کے دوران بتایا کہ پیپلز پارٹی کے شرجیل میمن سمیت 8 افراد بیرون ملک گئے اور بعد میں واپس نہیں آئے۔چیف جسٹس
نے ریمارکس دئیے کہ ایف آئی اے فہرست میں تاریخیں درست انداز میں نہیں لکھی گئیں، ٹرائل کے دوران پراسیکیوٹر کہے ریکارڈ نہیں مل رہا تو تکلیف ہوتی ہے، نیب کے کیسز میں ایسا ہوتا ہ رہا ہے کہ ریکارڈ نہ ملا ہو۔چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کیس میں مواد نہ ہو تو الگ بات ہے، عدالت کو تشویش آزادانہ تفتیش اور ٹرائل کے حوالے سے ہے، ایسا نہ ہو کہ مواد موجود ہو اور گواہان کو خاموش کروا دیا جائے، نیب کے جن مقدمات میں شواہد
نہیں ہیں انہیں واپس لے۔چیف جسٹس نے کہا کہ پراسیکیوشن کے درست کام نہ کرنے سے نظام انصاف پر برا اثر پڑتا ہے، نظام انصاف کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، یہ کہنا غلط ہے کہ پاکستان کی عدلیہ 128ویں نمبر پر ہے، پاکستان کی رینکنگ ڈیٹا نہیں بلکہ تاثر کی بنیاد پر کی گئی۔انہوں نے کہا کہ کسی بے گناہ کو جیل میں نہیں رہنا چاہیے، غلط فیصلے اعلی عدلیہ سے تبدیل ہو جاتے ہیں، 90 فیصد فیصلے اعلی عدلیہ میں برقرار رہتے ہیں،
عدالتی فیصلوں کے بعد لوگ اللہ کے نام پر معاف کر دیتے ہیں، دیکھنا ہوگا سنگین جرائم والوں کو معافی ملنی چاہیے ہے یا نہیں۔چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی زبردستی کیس بنوانے کی بات کرے تو عدالت کو آگاہ کریں، آپ سول سرونٹ ہیں کسی کی مداخلت تسلیم نہ کریں، اگر کوئی دبائو ڈالتا ہے تو عدالت کو بتائیں آپکو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔سماعت کے دوران عدالت کی جانب سے ایف آئی اے اور نیب کے
ہائی پروفائل مقدمات کا ریکارڈ طلب کرنے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا گیا کہ تمام شواہد اور ریکارڈ کی سافٹ کاپی سپریم کورٹ میں جمع کرائی جائے، اگر ریکارڈ گم ہوا تو سپریم کورٹ سے آپ کو مل جائے گا، ایف آئی اے تفتیشی افسران اور پراسیکیوٹر کے علاوہ دیگر افسران کو تبدیل کر سکتا ہے۔پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ نیب کو مقدمات کا جائزہ لینے کیلئے وقت دیا جائے، چیئرمین نیب کی تعیناتی کے بعد ہی احکامات پر عمل ممکن ہوگا۔
چیف جسٹس نے تنبیہ کی کہ نیب پر اگر کوئی دبائو ڈالے تو عدالت کو آگاہ کریں۔جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا چیئرمین نیب کو چارج کسی افسر کو دیا گیا ہے؟چیف جسٹس نے کہا کہ چیئرمین نیب کے حوالے سے توقع ہے حکومت سوچ سمجھ کر تعیناتی کریگی، معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہیں حکومت سے اچھی توقع ہے، توقع ہے صاف، ایماندار، قابل اور نیک نام شخص کو چیئرمین نیب لگایا جائے، سسٹم کے باہر سے کوئی دبائو قبول کیا جائے
نہ ہی تعیناتی کی جائے۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ توقع ہے جو کہنا چاہ رہا ہوں آپ سمجھ گئے ہوں گے، نیب بھی یقینی بنائے کہ اس کا ادارہ کسی کے خلاف انتقام کیلئے استعمال نہ ہو۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ای سی ایل سے نام نکلنے کے بعد 30 لوگ بیرون ملک گئے، 23 لوگ واپس آگئے، 7 لوگ واپس نہیں آئے، شرجیل انعام میمن بھی باہر گئے اور واپس نہیں آئے۔چیف جسٹس نے
کہا کہ عدالت کیلئے شرمندگی ہوتی ہے جب پراسیکیوٹر کہتا ہے ریکارڈ نہیں ملا، نیب کے مقدمات میں ایسا ماضی میں ہو چکا ہے، جن مقدمات میں شواہد نہیں وہ عدالتوں میں نہیں جانے چاہئیں۔انہوں نے کہا کہ ہماری تشویش ہے کہ آزادانہ تحقیقات ہوں اور شفاف ٹرائل ہو، یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ریکارڈ گم ہو جائے یا گواہوں کو خاموش کرا دیا جائے۔بعد ازاں کیس کی سماعت 14 جون تک ملتوی کردی گئی۔