اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) آئی ایم ایف تخمینے کے مطابق پٹرولیم سبسڈی کے لئے پاکستان کو سالانہ 1416 ارب روپے کی ضرورت ہے جب کہ حکومت کی جانب سے لگژری اشیاء پر لگائی گئی پابندی پر آئی ایم ایف نے اعتراضات اٹھائے ہیں اور ڈبلیو ٹی او نے بھی اس کی مخالفت کی ہے۔روزنامہ جنگ میں مہتاب حیدر کی خبر کے مطابق، آئی ایم ایف نے عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات
کی موجودہ قیمتوں کی بنیاد پر تخمینہ لگایا ہے کہ پاکستان کو سالانہ بنیاد پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھنے کے لیے سبسڈیز کی مد میں 1416 ارب روپے کی ضرورت ہے، اس لیے اسلام آباد کو مالی مسائل سے بچنے کے لیے فیول سبسڈیز واپس لینا ہوگی جب کہ بجلی کی مد میں حکومت کو سالانہ 139 ارب روپے کی ضرورت ہوگی۔آئی ایم ایف نے جاری کارکردگی کے طریقہ کار کی خلاف ورزی پر اعتراضات بھی اٹھائے ہیں کیوں کہ 6 ارب ڈالرز کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت اسلام آباد ادائیگی کے توازن کے مقاصد کے لیے درآمدات پر پابندیاں نہیں لگائے گا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے لگژری اشیاء کی درآمدات پر لگائی گئی پابندی پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) اور آئی ایم ایف نے تجارتی پابندیوں کے اقدام کی مخالفت کی ہے جس سے تجارت کے نظام میں مسائل پیدا ہوں گے۔جن ممالک کو ادائیگی کے توازن میں شدید مسائل کا سامنا ہے ان کے لیے طریقہ کار متعین ہے جس سے وہ عارضی پابندیاں لگاسکتے ہیں۔ آئی ایم ایف نے یہ اعتراض بھی کیا ہے کہ شیڈول مذاکرات سے قبل حکومتی اقدامات بغیر مشاورت کے کرنا درست نہیں۔
گفتگو کرتے ہوئے اعلیٰ حکام کا کہنا تھا کہ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں مرحلہ وار اضافے پر رضامندی ظاہر کی تھی اور ان کی قیمتوں کو حتمی شکل آئندہ ہفتے وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل اور آئی ایم ایف مشن کے سربراہ دوحہ میں دیں گے۔
خسارے میں جانے والے پاور سیکٹر کے حوالے سے حکومت ان تمام صارفین کے لیے بجلی ٹیرف میں اضافے پر غور کررہی ہے جو ماہانہ 300 یونٹس یا اس سے زائد بجلی استعمال کرتے ہیں، تاہم، اس کے ساتھ حکومت دیگر طریقہ کار پر بھی غور کررہی ہے تاکہ سیاسی نقصان کم سے کم ہو۔
آئی ایم ایف کے 6 ارب ڈالرز کے پروگرام کی بحالی کے لیے پاکستان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچا کہ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتیں بڑھائی جائیں کیوں کہ آئندہ مالی سال میں غیرفنڈڈ سبسڈیز جاری رکھنا ممکن نہیں ہے۔ حکومت کو معاشرے کی منتخب اکائیوں کو ٹارگیٹڈ سبسڈی دینا ہوگی۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے پی ٹی آئی دور حکومت میں میکرو اکنامک ایڈوائزری گروپ کے سامنے 17 فروری 2022 کو پریزینٹیشن دی تھی جسے اس وقت کے وزراء نے سیاسی بنیاد پر ویٹو کردیا تھا اور اس کے بعد 28 فروری، 2022 کو پٹرولیم مصنوعات اور بجلی پر سبسڈی دی گئی تھی۔ جس کے نتیجے میں مئی 2022 کی موجودہ قیمتوں پر 118 ارب روپے کا مالیاتی خلاء پیدا ہوا۔
وزارت خزانہ کے ذرائع کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عابد سلہری نے اپنی تجویز میں کہا تھا کہ پٹرول کی قیمتیں بڑھانے اور سپلائی چین پر پابندیوں سے بڑھتا طلب کا دبائو مہنگائی میں اضافے کا سبب بنے گا، جس سے متوسط آمدنی اور کم آمدنی والا طبقہ سخت متاثر ہوگا۔ریلیف فراہم کرنے کے لیے حکومت پاکستان سبسڈی پر پٹرول فراہم کررہی ہے اور فیول قیمتوں میں اضافے کی اوگرا کی تجاویز کئی بار مسترد کی گئی ہیں۔ تاہم، میڈیا کا ایک حصہ اور اپوزیشن جماعتیں اسے تسلیم نہیں کررہی ہیں۔
یہ صورت حال کا ایک زاویہ تھا۔ پاکستان میں ڈیڑھ کروڑ موٹر سائیکلیں (اور تین پہیوں والی گاڑیاں) 35 سے 40 فیصد پٹرول استعمال کرتی ہیں۔جس سے واضح ہوتا ہے کہ پٹرول پر حکومت کی آدھی سے زیادہ سبسڈی وہ صارفین حاصل کررہے ہیں جو اسے بلند قیمتوں پر حاصل کرسکتے ہیں۔
موٹر سائیکل اور تین پہیوں والی گاڑیوں کا استعمال کرنے والوں کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرنے کے لیے انہوں نے تجویز دی تھی کہ انہیں نقد سبسڈی فراہم کی جائے اور جب بھی پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے تو انہیں احساس راشن رعایت پروگرام کے ذریعے ریلیف دیا جائے۔اسکیم کے بنیادی مقاصد یہ تھے کہ اس سے پٹرولیم سبسڈی کا موثر استعمال ہوگا۔