اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) اگر شہباز شریف کی حکومت کو متعلقہ حکام سے اگست 2023 تک بر سراقتدار رہنے کے حوالے سے مطلوبہ یقین دہانی نہ ملی تو قومی اسمبلی تحلیل ہو جائے گی۔روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی خبر کے مطابق باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ اگلے دو دن بہت اہم ہیں۔ ذریعے نے کہا کہ آپ کو تیل کی قیمتوں میں اضافے کی خبر ملے گی یا پھر قومی اسمبلی تحلیل ہو جائے گی۔
منگل کی رات وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مشاورت کے بعد فیصلہ کیا کہ موجودہ حکومت کو جاری رہنا چاہیے اور معیشت کو درپیش چیلنجز کو حل کرنا چاہیے لیکن شرط ہے کہ اسے متعلقہ حکام سے مطلوبہ حمایت مل جائے۔ذریعے نے کہا کہ اتحادیوں کی رائے تھی کہ مطلوبہ یقین دہانی کے بغیر، حکومت تیل کی قیمتیں بڑھانے اور عمران خان حکومت کی جانب سے دی گئی بھاری سبسڈی کے خاتمے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی، اگر انتخابات اکتوبر میں کرائے گئے تو موجودہ حکومت ہی کو صرف مشکل سیاسی فیصلہ کرنے کی بھاری سیاسی قیمت چکانا پڑے گی اور اسے معیشت کو درست کرنے اور عوام کی خدمت کا موقع ہی نہیں ملے گا۔نواز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان تیل کی قیمتیں بڑھانے کے حق میں نہیں، ان کی رائے ہے کہ اس سے مہنگائی آئے گی اور عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔وزیراعظم شہباز شریف کو یقین ہے کہ معاشی مسائل حل ہو جائیں گے اور عوام تک کم از کم بوجھ منتقل ہوگا تاہم، انہوں نے تینوں سیاسی رہنماؤں سے اتفاق کیا کہ اپنی حکومت کی مدت کے حوالے سے مطلوبہ یقین دہانی ملنے تک کوئی حکومت کارکردگی نہیں دکھا سکتی۔
منگل کی مشاورت میں وزیراعظم نے تجویز دی کہ حکومت کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانا چاہیے اور اسٹیک ہولڈرز کو مدعو کرنا چاہیے تاکہ کمیٹی سے مطلوبہ یقین دہانی حاصل ہو سکے، کمیٹی میں دفاعی سروسز چیفس اور ڈی جی آئی ایس آئی سمیت اعلیٰ سکیورٹی عہدیدار شامل ہیں۔اسی اجلاس میں اس بات پر بھی بحث ہوئی کہ تیل کی قیمتوں پر سبسڈی اسی صورت ختم کی جائے گی جب قومی سلامتی کمیٹی متفقہ طور پر حکومت کی اگست 2023 تک کی مدت کے حوالے سے یقین دہانی کرائے۔
اکتوبر 2022 میں الیکشن ہوئے تو موجودہ حکومت صرف جولائی تک ہی برقرار رہ پائے گی کیونکہ قومی اسمبلی کو تحلیل کرنا ہوگا۔ایسی صورت میں شہباز شریف حکومت کے پاس صرف یہی آپشن باقی رہ جائے گا کہ کارکردگی دکھانے کا موقع ملے بغیر ہی مشکل فیصلہ کر لیا جائے۔ پاکستان میں موجودہ حالات میں سیاست انتہائی منقسم ہے۔
اس سے ملک کی معیشت کو نقصان ہوا ہے اور اب معیشت کو آئی ایم ایف کی مدد کی اشد ضرورت ہے اور اس کے بغیر بیشتر معیشت دانوں کو ڈر ہے کہ ملک دیوالیہ ہو سکتا ہے۔سیاسی غیر یقینی کی وجہ سے اسلام آباد کو آئی ایم ایف سے ہری جھنڈی نہیں ملی، آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے پروگرام کو فی الحال معطل رکھا ہوا ہے کیونکہ عمران خان کی حکومت نے تیل پر سبسڈی دیدی تھی۔ موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کیے اور عالمی ادارے نے شہباز حکومت سے اصرار کیا کہ سبسڈی ختم کی جائے تاکہ پٹری سے اترے ہوئے پروگرام کو واپس بحال کیا جا سکے۔شہباز نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا بھی دورہ کیا لیکن کہا جاتا ہے کہ دوست ممالک حتیٰ کہ چین بھی اسی صورت معاشی مسائل سے نمٹنے میں پاکستان کی مدد کریں گے جب آئی ایم ایف پاکستان کے لیے اپنا پروگرام بحال کرے۔