اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک )سینئر صحافی و اینکرپرسن سلیم صافی نے روزنامہ جنگ میں اپنے کالم کے دوران انکشاف کیا ہے کہ 2018الیکشن سے قبل مجھ پر بہت دباؤ ڈالا گیا کہ دیگر اینکرز کی طرح میں بھی ”پاکستان کو ووٹ دو“ کا پیغام ریکارڈ کرواؤں لیکن میں استعفیٰ دینے
کو تو تیار ہوا تاہم وہ پیغام ریکارڈ نہیں کروایا۔اگر قبل از انتخابات اور پولیٹکل انجینئرنگ کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو بھی جب پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکالا گیا اور آر ٹی ایس سسٹم فیل کروایا گیا تو ان انتخابات کی کوئی وقعت نہیں بنتی۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ 2018 کے انتخابات میں دوسرے بھی نہیں بلکہ تیسرے نمبر پر آنے والوں کو منتخب ڈکلیئر کیا گیا اور پھر انہیں وزیر مشیر بھی بنایا گیا۔چنانچہ میرے نزدیک اسمبلیاں اور ان اسمبلیوں سے بننے والا سیٹ اپ جعلی تھا اور جعلی ہے۔ جعلی اسمبلیوں کا لیڈر بدلنے سے ان کے جعلی ہونے کی حیثیت تبدیل نہیں ہوتی۔ میں عمران خان کی حکومت کو بھی ڈی فیکٹو سمجھتا تھا اور موجودہ سیٹ اپ کو بھی۔چنانچہ اصولی موقف میرا کل بھی یہ تھا اور آج بھی یہ ہے کہ پاکستان کا سیاسی بحران تب ختم ہوسکتا ہے جب آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرائے جائیں لیکن اب سوال یہ ہے کہ کب اور کیسے؟ سردست نئے انتخابات کیلئے ایک حوالے سے فضا بہتر ہوئی ہے اور وہ یہ کہ اسٹیبلشمنٹ مکمل طور پر آئینی رول تک محدود ہوکر سیاست، عدالت اور صحافت میں مداخلت سے فی الوقت تائب ہوچکی ہے چنانچہ گزشتہ پانچ برسوں میں پہلی مرتبہ ہمیں الیکشن کمیشن، عدلیہ اور میڈیا آزادی کے ساتھ کام کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں جو جمہوریت اور آزادانہ انتخابات کیلئے ضروری ہے۔