اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) اپنی حکومت کے آخری دنوں میں عمران خان نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے کہا تھا کہ وہ ان کے اس وقت کی اتحادی جماعتوں (ق لیگ، ایم کیو ایم اور بی اے پی) سے رابطہ کریں اور ان سے کہیں کہ وہ حکومت چھوڑ کر نہ جائیں۔ تاہم، اس بات پر دھیان نہیں دیا گیا کیونکہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ فیصلہ کر چکی تھی کہ وہ سیاسی معاملات سے دور رہے گی۔
روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی خبر کے مطابق باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان نے فوجی اسٹیبلشمنٹ سے توقع کی تھی کہ وہ ان کی حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کو تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر اپوزیشن والوں کے ساتھ ہاتھ ملانے سے روکے گی۔ جب ایسا نہ ہوا تو عمران خان پریشان ہوئے کیونکہ ماضی میں انہیں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بے مثال حمایت ملتی رہی تھی۔جب اتحادی جماعتوں کی اکثریت نے ان کی حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن والوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو وزیراعظم نے اپنے وزیر دفاع پرویز خٹک کے ذریعے فوج کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ رابطہ کیا تاکہ اپوزیشن کے ساتھ ممکنہ معاہدے کے امکانات کا جائزہ لیا جا سکے۔عمران خان اور اپنی پارٹی کے کچھ رہنمائوں کا اصرار تھا کہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی ان کے پاس کچھ آپشنز لے کر آئے تھے لیکن دفاعی ذرائع کا کہنا ہے کہ ملٹری قیادت اپوزیشن کی طرف سے آپشنز لیکر حکومت کے پاس نہیں گئی تھی بلکہ سویلین حکومت (وزیر دفاع پرویز خٹک) نے ٹیلی فون پر فوج کی اعلیٰ قیادت سے کہا تھا کہ ملاقات کرکے موجودہ سیاسی منظر نامے پر بات کی جائے۔
پرویز خٹک کی ٹیلی فون پر کی گئی درخواست کے بعد آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے وزیراعظم سے ملاقات کی۔ تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد، اس ملاقات میں باہمی طور پر تین آپشنز پر غور کیا گیا تھا جن میں ’’عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا کرنا‘‘، ’’استعفیٰ‘‘، اور ’’اسمبلیاں تحلیل کرنا‘‘ شامل تھے۔دفاعی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے پہلے دو آپشنز مسترد کر دیے اور تیسرے آپشن کو مسئلے کا قابل عمل حل قرار دیا۔
عمران خان کو آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے توقع تھی کہ فوج اپوزیشن والوں کو اس بات پر آمادہ کر لے گی کہ تحریک عدم اعتماد واپس لیے جانے کے عوض وزیراعظم قومی اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے تیار ہیں۔آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے اپوزیشن والوں سے ملاقات کی اور انہیں فوجی اسٹیبلشمنٹ اور سویلین قیادت کے درمیان زیر بحث آنے والے تین آپشنز سے آگاہ کیا۔
لیکن اپوزیشن نے تینوں آپشنز مسترد کردیے۔ شہباز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان نے متفقہ طور پر تینوں آپشنز مسترد کیے اور فوجی قیادت کو بتا دیا کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک پر آگے بڑھیں گے۔فوجی قیادت نے اپوزیشن والوں پر واضح کیا کہ اس ملاقات کا مقصد سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں بلکہ اپوزیشن کو سویلین قیادت کے ساتھ زیر بحث آنے والے آپشنز سے آگاہ کرنا تھا۔
اپوزیشن والوں کی ’’نہ‘‘ کے بعد فوجی قیادت نے یہ پیغام وزیراعظم عمران خان کو بتا دیا۔بحیثیت وزیراعظم عہدے سے ہٹائے جانے سے قبل عمران خان نے ایک نجی ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ اُن کے پاس اپوزیشن جماعتوں کے تین آپشنز لیکر آئی تھی۔ وزیراعظم کے بقول انہیں مستعفی ہونے یا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا آپشن دیا گیا بصورت دیگر عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے گی۔
بحیثیت وزیراعظم قومی سلامتی کمیٹی کے آخری اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے عمران خان نے ’’سازش‘‘ کے معاملے پر اصرار کیا لیکن فوجی قیادت کا کہنا تھا کہ ایسے الزام کو ثابت کرنے کیلئے شواہد موجود نہیں۔عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد عمران خان اور ان کی جماعت پی ٹی آئی کے بیانیے کا مرکز سازش رہا ہے، انہوں نے بالواسطہ اور بلاواسطہ فوج کی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے اور ’’ہینڈلر‘‘، ’’میر جعفر‘‘ اور ’’میر صادق‘‘ جیسے حوالہ جات دیے جا رہے ہیں۔
فوجی اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی امور میں مداخلت کی تاریخ موجود ہے لیکن پی ٹی آئی کے موجودہ بیانیے میں جو بات غیر معمولی اور خطرناک ہے وہ غیر ملکی سازش کو عملی جامہ پہنانے میں ’’ہینڈلرز‘‘ کا ملوث ہونے کا الزام ہے۔