لاہور(مانیٹرنگ، این این آئی)نگران وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی پنجاب اسمبلی میں موجودگی کے باوجود ان کی سکیورٹی اور سکواڈ واپس روانہ ہو گیا۔اس طرح جاتے جاتے عثمان بزدار کے ساتھ ہاتھ ہو گیا، دوسری طرف عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ انہو ں نے خود سکیورٹی سٹاف کو بھیجا ہے، عثمان بزدار گزشتہ روز ہنگامی طو رپر پنجاب اسمبلی پہنچے جہاں انہوں نے گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کے فیصلے کے
بعد کابینہ کے اراکین کے اجلاس کی صدارت کی تاہم اسی دوران ان کی سکیورٹی اورسکواڈ پنجاب اسمبلی سے واپس روانہ ہو گیا۔ عثمان بزدار نے بتایا کہ میں نے سکیورٹی اور سکواڈ کوخود واپس بھجوایا۔ عثمان بزدار بغیر سکیورٹی کے پنجاب اسمبلی سے روانہ ہوئے۔پنجاب کے محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کے حکام کے مطابق ہمیں وزیراعلی کا نوٹیفکیشن واپس لینے کا حکم نہیں ملااورپنجاب کابینہ کی بحالی کا نوٹیفیکیشن ہی موجود نہیں تھا۔گورنر کے حکم پر عملدرآمد کا لیٹر موصول ہونے پر نوٹیفکیشن ہوتا ہے، نوٹیفکیشن ایس اینڈ جی اے ڈی کیبنٹ ونگ جاری کرتا ہے۔دوسری جانب گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے سردار عثمان بزدار کا استعفیٰ آئینی اعتراض لگا کر مسترد کر کے سپیکر پنجاب اسمبلی کو خط لکھ دیا۔سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کو گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کا خط موصول ہو نے کی تصدیق کی ہے۔خظ کے متن میں کہا گیا کہ عثمان بردار کا استعفیٰآئینی اور قانونی طور پر مستند نہیں، آئین کے آرٹیکل 130 کی شق 8کے تحت عثمان بزدار کے خط کو استعفیٰ کہنا درست نہیں، وزیراعلی کا استعفیٰ اس آرٹیکل کے مطابق ہاتھ سے لکھا ہوا ہونا چاہیے اور گورنر پنجاب کو مخاطب کیا گیا ہو، وزیر اعلی کا استعفیٰمنظور کرتے ہوئے اس وقت کے گورنر چودھری سرور نے اس آئینی شق کو مد نظر نہیں رکھا۔خط کا متن میں کہا گیا کہ چودھری سرور نے
عوامی اجتماعات اور پریس کانفرنس میں اس آئینی کوتاہی کا ذکر بھی کیا، گورنر بنتے ہی میں نے ان تمام معاملات پر ایڈووکیٹ جنرل سے تفصیلی رائے لی، ایڈووکیٹ جنرل نے اٹھارہ مارچ کو اپنی رائے سے آگاہ کیا، ایڈووکیٹ جنرل کی قانونی رائے انتہائی چونکا دینے والی تھی، ایڈووکیٹ جنرل کی رائے کے مطابق عثمان بزدار کا استعفیٰ والا خط مکمل طور پر غیر آئینی تھا، ایڈووکیٹ جنرل کی رائے کے مطابق استعفیٰآئین کے آرٹیکل 130 شق 8کی خلاف ورزی تھا، اس رابطے کے زریعے معلوم ہوا کہ عثمان بزدار کا استعفیٰ اور اس کی قبولیت کا نوٹیفیکیشن قوانین کی خلاف ورزی تھا۔
گورنر پنجاب کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ یہ تمام معلومات اور ان پر صدر پاکستان کا کوئی بھی فیصلہ ہونا ابھی باقی تھا، عدالت نے اسی دوران سپیکر قومی اسمبلی کو وزیر اعلی کا حلف لینے کا کہہ کر گورنر کے آئینی کام میں مداخلت کی، وزیر اعلی کے الیکشن کے حوالے سے سیکرٹری پنجاب اسمبلی کا خط بھی الیکشن کی شفافیت پر بڑا نشان ہے، اس تمام صورت حال میں حمزہ شہباز کا حلف کروانے کا عدالتی فیصلہ بھی غیر قانونی ہے، ان معاملات میں میں بطور گورنر اپنے آئینی کردار پر چپ نہیں رہ سکتا، سپیکر پنجاب اسمبلی سے گزارش ہے کہ ان تمام معاملات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں، اس معاملے میں سپیکر پنجاب اسمبلی حالات کے مطابق آئینی کردار ادا کریں۔