ہائیکورٹ نے عدلیہ کے خلاف منظم مہم پر اے آر وائی کے بیورو چیف کو طلب کر لیا

29  اپریل‬‮  2022

اسلام آباد(مانیٹرنگ، آن لائن)چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے صحافی و اینکر ارشد شریف کو ہراساں کرنے کے خلاف کیس کی سماعت میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتیں رات کو کھلنے پر کیوں اتنی تشویش ہے؟ ایک بیانیہ بنا دیا گیا کہ عدالتیں کھولی گئیں، کیا اس بیانیے کے پیچھے کوئی سیاسی وجہ ہے۔ عدالت اللہ کی ذات کے سوا کسی سے نہیں ڈرتی

سپریم کورٹ کے خلاف سیاسی بیانیوں اور ان پر حملہ کرنے میں کیا فرق ہے؟ عدالت نے ضروری ہدایات کے ساتھ درخواست نمٹا دی۔نجی ٹی وی کے مطابق ہائیکورٹ نے عدلیہ کے خلاف منظم مہم پر اے آر وائی کے بیورو چیف کو طلب کر لیا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت نے صحافی و اینکر ارشد شریف کو ہراساں کرنے کے خلاف کیس کی سماعت کی ارشد شریف اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے پیش ہوئے جبکہ پی ایف یو جے کے سابق صدر افضل بٹ بھی ارشد شریف کے ہمراہ عدالت پہنچے ارشد شریف کے وکیل فیصل چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ ارشد شریف یہاں موجود ہیں کورٹ کی مداخلت کے بعد ان کی واپسی ہوئی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت ہر کسی کے لیے یہاں موجود ہے اپ نے کاشف عباسی کا پروگرام دیکھا ہے؟حقائق کی تصدیق کے بغیر کیا کچھ کہا گیاانہوں نے کہا کہ عدالت رات کو کھلی کیوں؟عوام پر عدالت کا اعتماد اٹھانے کی کوشش کی عدالتیں رات کو تین بجے بھی کھلیں گی اگر معاملہ آئین یا کسی پسے ہوئے طبقے سے متعلق ہوسپریم کورٹ نے کون سا آرڈر جاری کیا تھا جس سے کوئی متاثر ہواایک بیانیہ بنا دیا گیا کہ عدالتیں کھلیں عدالتیں کھلیں گی اور کسی کو آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیں گی آپ لوگوں کا عوام پر اعتماد ختم کر رہے ہیں جس پر فیصل چوہدری نے کہا جنہوں نے پروگرام کنڈکٹ کیا اس متعلق وہی بتا سکتے ہیں

جس پر عدالت نے کہا کہ اس عدالت کے بارے میں بھی کہا گیا کہ چیف جسٹس عدالت پہنچ گئیآپ چاہتے ہیں کہ عدالت فوری نوعیت کی درخواستیں نہ سنے؟یہ کورٹ توہین عدالت پر یقین نہیں رکھتی، 2019 کا نوٹی فکیشن ہے اس موقع پر عدالت نے اے آر وائی کے رپورٹر سے استفسار کیا کہ آپ نے اپنے چینل کو پریس ریلیز دی تھی؟مطیع اللہ جان کا کیس اس عدالت نے کس وقت سنا؟آپ کے پٹیشنر نے دستخط نہیں کیے تھے اور عدالت نے پٹیشن سنی

عدالت نے ایک نہیں عدالتی اوقات کار کے بعد بہت سی درخواستیں سنیں کوئی ذمہ داری بھی ہوتی ہیآپ کو تو خوش ہونا چاہئے کہ آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جا رہی اگر رات کو تین بجے کوئی ارشد شریف کو اٹھائے تو کیا عدالت کیس نہ سنے؟کیا اس کی کوئی سیاسی وجوہات ہیں؟ آپ چاہتے ہیں کہ عدالت سے اعتماد اٹھ جائے سپریم کورٹ نے واضح پیغام دیا ہے کہ آئین کے خلاف کسی اقدام کی اجازت نہیں دی جائے گی آپ کو معلوم ہے کہ

درخواست جرمانے کے ساتھ خارج کی گئی تھی سب لگے ہوئے ہیں کہ عدالتیں کھل گئیں آپ سمجھتے ہیں کہ عدالتیں نہیں، آپ کا چینل آئین کو بہتر سمجھتا ہے؟جھوٹ کے اوپر ایک بیانیہ بنا دیا گیا ہے کہ عدالتیں کھل گئیں آپ کے چینل نے مسنگ پرسنز یا بلوچ سٹوڈنٹس سے متعلق کتنے پروگرام کیے؟ اس موقع پر عدالت نے افضل بٹ سے استفسار کیا کہ آپ میڈیا کے نمائندے کے طور پر یہاں موجود ہیں، بتائیں کہ کیا یہ رویہ درست ہے؟رپورٹرز تو

درست خبر دیتے ہیں مگر اکثر آفس میں بیٹھے افراد کو حقائق کا علم نہیں ہوتا اور غلط تبصرہ کر دیتے ہیں سیاسی بیانیے کے لیے اداروں کو تباہ کر رہے ہیں اور ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا سپریم کورٹ آئین کی تشریح کے لیے اعلی ترین فورم ہیآپ کو نصیحت ہے کہ یہ کام نہ کریں کیونکہ یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہیآپ کے چینل نے مسنگ پرسنز کے لیے کتنی آواز اٹھائی جو اصل ایشو ہے بنیادی حقوق کے لیے عدالت کھلے گی، ان بیانیوں سے

کچھ نہیں ہو گا سپریم کورٹ کے اعلی ججز کے بارے میں باتیں ہوتی ہیں صرف اس لیے کہ وہ جواب نہیں دے سکتے؟جہاں پر ہم سے غلطی ہوتی ہے ضرور بتائیں آپ سب سے پوچھتا ہوں کہ اس رات ہوا کیا؟ کیا کسی عدالت نے کوئی آرڈر پاس کیا ہے؟عدالت نے عدالتی اوقات کے بعد صحافیوں کی پٹیشنز بھی سنیں ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ ہم کسی کے کہنے پر بیٹھے تھے کیا کوئی ہم تک رسائی کر سکتا ہے؟یہ ہمارا قانون میں ہے کہ چیف جسٹس ایک

انتہائی فوری نوعیت کا کیس کسی بھی وقت سن سکتا ہے اس متعلق 2019 میں نوٹی فکیشن کیا، اس حوالے سے پٹیشن مجھ تک ضرور پہنچے گی اس پر میں نے فیصلہ کرنا ہے کہ اس میں انتہائی فوری نوعیت کا معاملہ ہے یا نہیں سیاسی بیانیے کو اداروں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔اداروں کے ساتھ ایسا نہ کریں، ذمہ داری کا مظاہرہ کریں کورٹ رپورٹرز بہت زبردست کام کر رہے ہیں ان سے کوئی بات چھپی نہیں ہونی چاہئے تھی صرف کاغذ کا

ایک ٹکڑا تھی لیکن عدالت اس پٹیشن کو رات تاخیر سے بھی سنتی ارشد شریف کی پٹیشن صرف کاغذ کا ٹکڑا تھی جسے سنا اس موقع پر صحافی ارشد شریف نے عدالت کو بتایا کہ ہم مسنگ پرسنز کا ایشو اٹھانا چاہتے ہیں مگر نامعلوم افراد کی جانب سے دھمکیاں ملتی ہیں اس متعلق غیر اعلانیہ سینسر شپ ہے جس پر عدالت نے کہا کہ آپ چینلز ڈرتے ہوں گے، یہ عدالت اللہ کی ذات کے سوا کسی سے نہیں ڈرتی سپریم کورٹ کے خلاف سیاسی بیانیوں اور ان پر حملہ کرنے میں کیا فرق ہے؟ عدالت نے ضروری ہدایات کے ساتھ درخواست نمٹا دی۔

موضوعات:



کالم



آئوٹ آف دی باکس


کان پور بھارتی ریاست اترپردیش کا بڑا نڈسٹریل…

ریاست کو کیا کرنا چاہیے؟

عثمانی بادشاہ سلطان سلیمان کے دور میں ایک بار…

ناکارہ اور مفلوج قوم

پروفیسر سٹیوارٹ (Ralph Randles Stewart) باٹنی میں دنیا…

Javed Chaudhry Today's Column
Javed Chaudhry Today's Column
زندگی کا کھویا ہوا سرا

Read Javed Chaudhry Today’s Column Zero Point ڈاکٹر ہرمن بورہیو…

عمران خان
عمران خان
ضد کے شکار عمران خان

’’ہمارا عمران خان جیت گیا‘ فوج کو اس کے مقابلے…

بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟

’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…