لاہور( این این آئی)لاہورہائیکورٹ نے نامزد وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز ، ڈپٹی سپیکر سردار دوست مزاری اور مسلم لیگ (ق) کی درخواستوں پر وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا جو آج بدھ کے روز سنایا جائے گاجبکہ چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے ریمارکس دئیے کہ آپ لوگ تو کسی نتیجے پر نہیں پہنچے مگر اب قانون اپنے نتیجے پر پہنچے گا۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس محمد امیر بھٹی نے درخواستوں پر سما عت کی ۔مسلم لیگ (ن)کی جانب سے اعظم نذیر تارڑ، (ق)لیگ کے سید علی ظفر، سیکرٹری پنجاب اسمبلی محمد خان بھٹی اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔دوران سماعت اعظم نذیر تارڑ نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم پر ڈپٹی سپیکر نے اپنے آفس کا چارج لے لیا ہے۔دوران سماعت مسلم لیگ (ق)کے وکیل نے ایک بار پھر درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ لاہور ہائیکورٹ کے پاس انتخابات کی تاریخ بدلنے کا کوئی اختیار نہیں ۔انہوںنے کہاکہ درخواست گزار صوبائی اسمبلی کے ایگزیکٹو اختیارات کو چیلنج کر رہے ہیں صوبائی اسمبلی کو بھی درخواستوں میں فریق بنایا گیا ہے۔یہ معاملہ ابھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ،لاہور ہائیکورٹ یہ کیس نہیں سن سکتی، اجلاس کب بلانا ہے کب ملتوی کرنا ہے عدالتوں کو ان معاملات میں مداخلت کا اختیار حاصل نہیں ۔دلائل جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ایسے ہی ہے کہ صوبائی اسمبلی عدالت سے کیسز کے التوا ء کے بارے میں پوچھنا شروع کر دے، پارلیمنٹ اور عدالتیں ایک دوسرے کا احترام کرتی ہیں اس لئے دائرہ اختیار میں مداخلت نہیں کرتے۔اگر عدالتیں اور پارلیمنٹ ایک دوسرے کے اختیار میں مداخلت کریں تو یہ ٹکرا ہو جائے گا۔درخواست گزاروں کے مطابق اسمبلی رولز پر عملدرآمد نہیں ہو رہا لیکن یہ اسمبلی کا معاملہ ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا رولز میں یہ ہے کہ وزیر اعلی کے الیکشن فوری کروائیں جائیں گے جس پر مسلم لیگ (ق)کے وکیل نے کہا کہ رولز میں وزیر اعلی کے الیکشن کے لیے مخصوص وقت کا نہیں لکھا گیا۔رولز میں یہ ہے کہ وزیراعلی کے انتخاب کے علاوہ اسمبلی کوئی اور کام نہیں کرے گی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ووٹنگ سے ایک روز قبل کاغذات نامزدگی کا عمل مکمل کرنا لازم ہے، الیکشن میں صرف چار دن رہ گئے ہیں تاریخ آگے پیچھے کرنے سے کچھ نہیں ہو گا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جب وزیر اعلی کے امیدوار سپیکر صوبائی اسمبلی نے ڈپٹی اسپیکر کو اختیارات دئیے تھے اختیارات واپس کیوں لیے۔جس پر علی ظفر نے کہا کہ اختیارات انتخابی مرحلے کے لیے نہیں دئیے گئے تھے۔اسپیکر اسمبلی کے کیا اختیارات ہیں اور انہیں کیا اختیارات ملنے چاہئیں فیصلہ اسمبلی رولز ہی کریں گے۔مسلم لیگ (ق)کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ (ن)لیگ نے اسمبلی کے
باہر بیٹھ کر اجلاس کیا، انہوں نے ایک حکومت کی موجودگی میں دوسری حکومت بنانے کی کوشش کی جو آئین سے منحرف ہوناہے۔(ن)لیگ کے تو چیف سیکرٹری اور بیوروکریسی بھی یہ چاہ رہے تھے کہ اب ان سے رابطہ کیا جائے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ حلف لیے بغیر تو کوئی عہدہ پر نہیں آسکتا۔مسلم لیگ (ق)کے وکیل نے استدعا کی کہ حمزہ شہباز اور دوست مزاری کی درخواستوں کو خارج کیا جائے، وزیر اعلی کیلئے ووٹنگ 16 اپریل کو ہی کرانے کی ہدایت کی جائے۔کچھ وقت کے لیے
سماعت ملتوی ہونے کے بعد عدالتی کارروائی دوبارہ شروع ہونے پر مسلم لیگ (ق)کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اب ڈپٹی سپیکر بطور پرائزئیڈنگ افسر وزیر اعلی پنجاب کا انتخاب نہیں کروا سکتے۔کیونکہ ڈپٹی اسپیکر متنازعہ ہو گئے ہیں اوروہ صاف الیکشن نہیں کروا سکتے، ڈپٹی سپیکر نے ابھی سے سیکرٹری پنجاب اسمبلی پر پابندیاں عائد کرنا شروع کردی ہیں۔عدالت نے استفسار کیا کہ ایسی صورتحال میں کیا کیا جاسکتا ہے جس پر علی ظفر نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کے بعد پینل آف چیئرمین اجلاس کی
صدارت کرے گا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر دونوں جماعتیں اپنے اپنے امیدوار کے اجلاس کی صدارت کے لیے زور لگائیں تو کیا ہو گا۔مسلم لیگ (ق)کے وکیل نے جواب دیا کہ ان حالات میں ڈیڈ لاک ہو جائے گا اور صوبے میں گورنر راج لگ سکتا ہے۔حمزہ شہباز کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب اسمبلی میں 4 اراکین آزاد حیثیت سے ہیں ،ان میں سے ایک کو ووٹنگ کے لیے پریذائیڈنگ افسر مقرر کردیا جائے
، چاروں اراکین باعزت اور اچھی شہرت کے حامل افراد ہیں۔مسلم لیگ (ق)کے وکیل نے چاروں اراکین پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جگنو محسن حمزہ شہباز کے ساتھ ہیں، ہمیں چاروں اراکین پر اعتماد نہیں ۔حمزہ شہباز کے وکیل نے جواب دیا کہ کیا پھر ہوائی مخلوق الیکشن کروانے آئے، اگر آپ کو کسی پر اعتماد نہیں تو بلا مقابلہ حمزہ شہباز کو وزیر اعلی منتخب کردیں۔
دوسری بار عدالتی کارروائی کچھ گھنٹوں کے لیے ملتوی ہونے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہونے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ لوگ تو کسی نتیجے پر نہیں پہنچے مگر اب قانون اپنے نتیجے پر پہنچے گا، معاملے کی سماعت نماز کے بعد ہوگی۔نماز کے وقفے کے لیے تیسری بار ہونے والی سماعت دوبارہ شروع ہونے پر مسلم لیگ (ق)کے وکیل علی ظفر نے کہاکہ پینل آف چیئرمین میں 4 اراکین ہیں، رولز کے مطابق اگر سپیکر اور ڈپٹی اسپیکر نہیں ہوں گے تو پینل آف چیئرمین سے پہلے
نمبر پر موجود ممبر صدارت کرے گا۔مسلم لیگ (ن)کے وکیل اعظم نذیر تارڑ فریقین نے کہا کہ آپس میں مفاہمت سے کوئی تاریخ طے نہیں کر سکتے عدالت مناسب فیصلہ جاری کر دے، سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ بھی عدالت کے سامنے ہے۔انہوں نے کہا کہ ہر گزرتا لمحہ ضائع ہو رہا ہے کیونکہ عوام کی خدمت کے لیے کوئی حکومت ہی موجود نہیں۔وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد لاہور ہائیکورٹ نے درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا جوآج بدھ کے روز سنایا جائے گا۔