اسلام آباد (این این آئی) اسد قیصر کے قومی اسمبلی کے اسپیکر کے عہدے سے استعفیٰ کے ساتھ ہی حکومتی اراکین بھی ایوان سے چلے گئے ۔تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے سے انکار کرکے اسپیکر اسد قیصر مستعفی ہوئے اور ایوان ایاز صادق کے حوالے کرگئے جس کے بعد ایاز صادق کی صدارت میں اجلاس کی کارروائی آگے بڑھائی ۔اس دوران ایوان میں حکومتی بینچز مکمل طور پر خالی ہوئے اور ارکان ایوان سے چلے گئے۔
ایاز صادق نے وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پڑھ کر سنائی اور ایوان کا اجلاس 12 بج کر دو منٹ تک ملتوی کردیا گیا۔بعد ازاں قومی اسمبلی کا اجلاس دوبارہ تلاوت قرآن پاک سے باقاعدہ شروع ہوا ۔ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا ۔ ہفتہ کو اسپیکر اسد قیصر نے قومی اسمبلی میں آکر کہا کہ زمینی حقائق کے تحت میں نے فیصلہ کیا ہے نئی دستاویزات کے تحت میں نے فیصلہ کیا ہے میں اسپیکر کے عہدے پر قائم نہیں رہ سکتا اور استعفیٰ دے رہا ہوں۔انہوں نے کہا کہ میں 26 سال سے عمران خان کیساتھ رہا اور اسٹوڈنٹ لائف سے تحریک انصاف کا کارکن ہوں۔اسد قیصر نے کہا کہ میں گزشتہ 26 سال سے پی ٹی آئی اور عمران خان کے رہا ہوں۔ انہوںنے کہاکہ ہمارے لیے سب سے پہلے پاکستان ہے، عمران خان نے ملک کی خودداری اور آزادی کیلئے ایک مؤقف اپنایا ہے اور وہ اس پر ڈٹ کر کھڑے ہیں۔انہوںنے کہاکہ میں نے آئین کے تحت حلف اٹھایا ہے، اور میں اس کا پابند ہوں، حلف کے مطابق میں ریاست پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کے تحفظ کا پابند ہوں۔انہوں نے کہا کہ کیبنٹ کی جانب سے مجھے نئی دستاویزات موصول ہوئی ہے، یہ دستاویز دفتر میں موجود ہے، اپوزیشن رہنما یہ دستاویز دیکھنا چاہیں تو دیکھ سکتے ہیں جبکہ یہ دستاویز چیف جسٹس کو بھی دیکھائی جائے گی اور اس بیرونی سازش کے خلاف پاکستان کے ساتھ سب کو کھڑا ہونا چاہیے۔
اسد قیصر نے وزیراعظم سے ملاقات کے بعد پانچویں بار اجلاس کی سربراہی کرتے ہوئے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا اور ایوان کی باقی کارروائی ایاز صادق کے سپرد کی۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 7 اپریل کو ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی رولنگ اور صدر مملکت کے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ یہ تمام ججز کا متفقہ فیصلہ ہے،
ہم نے ایک دوسرے سے مشورہ کیا، ڈپٹی اسپیکر کی 3 اپریل کی رولنگ غیر آئینی تھی جبکہ وزیر اعظم صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس نہیں دے سکتے تھے۔عدالت عظمیٰ نے قومی اسمبلی کو بحال کرتے ہوئے اسپیکر کو ایوان زیریں کا اجلاس 9 اپریل بروز ہفتہ صبح ساڑھے 10 بجے تک بلانے اور تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کی ہدایت کی تھی۔چیف جسٹس نے حکم دیا تھا کہ ووٹنگ والے دن کسی رکن قومی اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جائے گا، تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں فوری نئے وزیر اعظم کا انتخاب ہوگا جبکہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو تو حکومت اپنے امور انجام دیتے رہے گی۔