لاہور( این این آئی)تحریک انصاف کیلئے وفاق کے بعد پنجاب میں بھی محاذ گرم ہو گیا ، جہانگیر ترین گروپ اور عبد العلیم خان گروپ کے رہنمائوں کا مشترکہ اجلاس ماڈل ٹائون میں جہانگیر ترین کی رہائشگاہ پر ہوا جس میں عبد العلیم خان نے بھی جہانگیر ترین گروپ میں شمولیت اختیار کر لی جبکہ دیگر گروپوں کو بھی ساتھ ملانے کے لئے رابطے کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے ،اجلاس میںمجموعی سیاسی صورتحال
، سیاسی جماعتوں کے ہونے والے رابطوں اور آئندہ کی حکمت عملی کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا جبکہ شرکاء نے وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی کارکردگی پر شدید تشویش کا اظہار کیا ، صوبائی وزیر سردار آصف نکئی بھی اجلاس میں شریک ہوئے ۔ ذرائع کے مطابق بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال میں جہانگیر ترین اور عبد العلیم گروپ کے رہنمائوں نے انتہائی شارٹ نوٹس پر جہانگیر خان ترین کی رہائشگاہ پر مشترکہ اجلاس منعقد کیا ۔اجلاس کی صدارت سینئر رہنمااسحاق خاکونی نے کی جبکہ اس موقع پر ،عبد العلیم خان ، صوبائی وزراء سردار آصف نکئی ، اجمل چیمہ ، ملک نعمان لنگڑیال ، شعیب صدیقی ،عون عباس، عبد الحی دستی، زوار وڑائچ، سعید اکبر نوانی، غلام رسول سنگا، بلال وڑائچ سمیت دیگر نے شرکت کی ۔ جہانگیر ترین گروپ کے رہنما صوبائی وزیر ملک نعمان لنگڑیال نے عبد العلیم خان اور سردار آصف نکئی کو خوش آمدید کہا ۔ اجلاس میں موجودہ بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا ۔ ذرائع کے مطابق اجلاس اور فیصلوں کے حوالے سے لندن میں علاج کیلئے موجود جہانگیر خان ترین کو بھی با خبر رکھا گیا ۔ بتایا گیا ہے کہ عبد العلیم خان نے بھی جہانگیر ترین گروپ کو اپنی حمایت کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ ہمیں جماعت کے دیگر ناراض اراکین اور گروپوں کوبھی اپنے ساتھ شامل کرنا چاہیے کیونکہ ہم نے اپنی پارٹی کو بچانا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی چالیس اراکین اسمبلی سے ملاقاتیں ہو چکی ہیں جن میں دس وزراء بھی شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدا رکے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا گیا ۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں پنجاب پر فوکس کیا گیا اس لئے اراکین قومی اسمبلی کو مدعو نہیں کیا گیا ۔ اجلاس میں مجموعی طو رپر 18سے زائد اراکین پنجاب اسمبلی شریک ہوئے جن میں 3وزراء بھی شامل ہیں۔ اجلاس کے بعد جہانگیر ترین گروپ کے ترجمان سعید اکبر نوانی نے کہا کہ آج کا اجلاس ایک مشاورتی نشست تھی جس میں تمام دوستوں نے اکٹھے رہنے کی بات کی ہے ۔ ہم نے یہ بھی دکھانا تھا جہانگیر ترین ملک میں نہ بھی ہوں تو اجلاس انہی کی سربراہی میںان کے گھر میں ہو رہا ہے جبکہ تاثر بھی نہ جائے کہ ہم شاید جہانگیر ترین کے جانے کے بعد
آگے پیچھے ہو گئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے تمام گروپس مل کر جہانگیر ترین کی لیڈر شپ میں لائحہ عمل مرتب کریں گے او راس پر عمل ہوگا۔ ملک نعمان لنگڑیا ل نے کہا کہ میں علیم خان کو گروپ میں شامل ہونے پر مبارکباد پیش کرتا ہوںکہ انہوں نے بھی اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے ۔یہاں اکٹھا ہونے کا مقصد جہانگیر ترین سے اظہار یکجہتی بھی تھا۔ ہماری دعا ہے کہ وہ جلد صحتمند ہو کر
پاکستان واپس لوٹیں اور انشااللہ وہ دو چار روز میں واپس آئیں گے ۔ ہم نے ثابت کیا ہے کہ ہمارے گروپ کا اتحاد بر قرار ہے ۔عبد العلیم خان نے کہا کہ جو گزشتہ دس سالہ دور تھا اس میں عمران خان اور تحریک انصاف کی جدوجہد میں بہت سارے ساتھی شامل تھے اور ان میں جہانگیر ترین کا بہت بڑا حصہ تھا ، اس جدوجہد کونتائج تک پہنچانے اورمحنت کرنے میں جتنا جہانگیر خان ترین نے اہم کردار ادا کیا ،
ہم تحریک انصاف والے جدوجہد کیلئے مشکل وقت میں پارٹی کے ساتھ کھڑے ہونے کے لئے اوردن رات محنت کرنے کے لئے جہانگیر ترین کے مشکور او رممنون ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب جب جہانگیر خان ترین علیل ہیں تو میں نے اسحاق خاکونی سے خود کہا کہ جہانگیر خان ترین کی رہائشگاہ پر اجلاس رکھیں ،ہم ایک ایسے دوست کو سب مل کر پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اس کے باوجود آپ ملک میں نہیں
ہم نے آپ کو بھلایا نہیں ۔ سیاست دوستوں میں اضافے کا نام ہے ،سیاست مشکل میں دوستوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا نام ہے ۔ جن بھی دوستوں نے پارٹی کے لئے ساتھ دیا ان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں ، جدوجہد میں جس جس کا بھی حصہ ہے خواہ وہ بیس سال سے ہے خواہ دس سال یا آخری دو تین سالوں میں ساتھ رہا وہ سب قابل احترام ہیں ، میں پوری ایمانداری کے ساتھ کہہ رہا ہوں مجھے پانچ سات چہرے نظر آتے ہیں
جو جدوجہد میں بہت نمایاں چہرہ تھے ۔بد قسمتی سے حکومت کے بعد جہانگیر ترین سے کام کیوں نہیں لیا گیا انہیںاہمیت کیوں نہیں دی گئی اس کا جواب بہت سارے کارکنوں کو سمجھ نہیں آ سکا ، وہ تمام لوگ جنہوں نے عمران خان کے ساتھ ایک نئے پاکستان کی جدوجہد میںانتھک محنت کی تھی ان کے لئے دن رات کام کیا تھا ، خون پسینہ بہایا تھا انہیں کیوں نظر انداز کیا گیا س کا جواب نہیں آیا۔
انہوں نے کہا کہ حکومتیں بن جاتی ہین تو کچھ اور لوگ ہوتے ہیں جو اردگرد آ جاتے ہیں اورجو وفادار او رکمٹڈ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے برے وقت میں ساتھ دیا ہوتا ہے وہ پیچھے چلے جاتے ہیں۔اگر آج پارٹی اپنی مقبولیت میں اضافہ کر رہی ہوتی لوگوں کی امیدوروں پر پور ااتر رہی ہوتی توتحریک انصاف کے لئے جدوجہد کرنے والوں کو نظر انداز کرنے کا ہرگز کوئی شکوہ نہ ہوتا ۔ جس طرز کی پنجاب میں
حکمرانی ہے جس طریقے سے حکومت کا کاروبار چل رہا ہے پی ٹی آئی کے مخلص کارکنان اورووٹ دینے والوں کو اس پر تشویش ہے ۔ ہماری آج بھی یہی بات ہوئی ہے کہ ہم سب تحریک کا حصہ تھے جو مخلص تھے ،ہم نے قربانیاں دی ہیں ہم اس لئے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوں ، ہم خیال دوستوں کا گلدستہ ہے ان میں وہ تمام لوگ شامل ہوں گے جو اس تحریک میں فعال کردار اد اکرتے رہے ہیں۔ جہانگیر ترین واپس آئیں گے اورگلدستہ بنے گا ۔انہوں نے بتایا کہ چالیس سے زائد اراکین پنجاب اسمبلی کو مل چکا ہوں
،آج کے حالات پر اور پنجاب کی حکمرانی جس طرح چل رہے ہیں اس پر سب تشویش سے دوچار ہیں ۔ہم تحریک انصاف کے تمام گروپس کو یکجا کریں گے، ہم سب نے نئے پاکستان کے لئے محنت کی ہے ،جب آج اس جدوجہد کو رائیگاں جاتے دیکھتے ہیں تو دلی افسوس ہوتا ہے ۔ آخری وقت تک کوشش ہے کہ پی ٹی آئی کو مضبوط اور متحد کریں،جہانگیر ترین نے اس پارٹی کے لئے بہت محنت کی دن رات محنت کی ہے کوئی نہیں چاہتا یہ پارٹی کمزور ہو ۔ یہ ہم سب کی بھی پارٹی ہے یہ کسی فرد واحدد کی پارٹی نہیں ،
ہم نے اس کے لئے خون پسینہ بہایا ہے ، ہم سب سارے اکٹھے ہوں گے جتنے بھی گروپس ہیں ان کو بھی گزاش کرتا ہوں ہمیں اپنی پارٹی کو بچانے کیلئے اکٹھے ہو کر کوشش کرنی ہے ۔انہوں نے کہا کہ میرے لئے اعزاز ہے کہ میں تحریک کا حصہ رہا ہوں ، بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے جدوجہد میں ہمارے ساتھ دن گزار ے ہیں ۔ جب ایک جماعت کا وزیر اعظم ہو اور وزیر اعلیٰ بھی اس کا ہو اور وہ طاقتور ترین ہوں ان کے سامنے لاہور شہر میں کھڑا ہونا آسان کام نہیں تھا بلکہ حوصلے او رجواں مردی کا کام تھا
، میں نے یہ وقت کسی عہدے اور غرض کے لئے گزارا تھا بلکہ وہ ایک جذبے کے تحت گزارا تھا، جو بھی تحریک میں شامل ہوئے تھے وہ کسے عہدے کے لئے نہیں بلکہ نئے پاکستان کے لئے شامل ہوئے تھے لیکن آج ہمیںمایوسی ہوتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ میرے پاس وزیر اعلیٰ سے زیادہ وسائل ہیں،ذاتی استعمال کے لئے ان سے بہترگاڑیاں ہیں،ان سے بہتر جہازموجود ہے مجھے ایسی خواہش نہیں تھی کہ میں نے وزیر اعلیٰ بننا تھا، میں نے عمران خان کا ساتھ دیا ۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے دوستوں کی مشاورت سے فعال ہوا ہوں ، ہماری پارٹی کو آج جن مسائل کا سامنا ہے ،جس طرح کی تبدیلی آرہی ہے جو بھی سنجیدہ دوست ہیں انہیںفعال ہونا پڑے گا، میرا جو کردار ہوگا میںاس کو ضرور نبھائوں گا۔انہوں نے کہا کہ اگر پنجاب میںعدم اعتماد آتی ہے ہم سب مل کر اس کا فیصلہ کریں گے ہم نے کس کا ساتھ دینا ہے ۔