کیف، ماسکو (مانیٹرنگ ڈیسک) برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ یوکرین کے دارالحکومت کیف سمیت دیگر شہروں میں دھماکوں کی آوازیں سنی جا رہی ہیں، یوکرین کی بلیک سی پورٹ اڑیسہ پر دھماکے سنے گئے ہیں، کیف اور خیرکیف میں ملٹری کمانڈر سینٹرزپر بھی میزائل حملے کئے گئے ہیں، متعدد افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں، دوسری جانب روسی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ یوکرین کے شہروں پر میزائل اور آرٹلری سے حملہ نہیں کر رہے۔
واضح رہے کہ یوکرین کی جانب سے جوابی کارروائی میں 5 روسی طیارے اورایک ہیلی کاپٹرتباہ کردیا گیا۔جبکہ یوکرائن کے صدرنے ملک بھر میں مارشل لا نافذ کردیا ہے۔غیر ملکی خبررساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق انہوں نے ٹیلی ویژن پر ایک حیران کن بیان میں کہا کہ میں نے فوجی آپریشن کا فیصلہ کر لیا ہے۔ولادیمیر پیوٹن نے دوسرے ممالک کو خبردار کیا کہ روس کی کارروائی میں مداخلت کی کوئی بھی کوشش ایسے نتائج کا باعث بنے گی جو انہوں نے کبھی نہیں دیکھے ہوں گے۔انہوں نے امریکا اور اس کے اتحادیوں پر الزام لگایا کہ وہ یوکرین کو نیٹو میں شمولیت سے روکنے کے لیے روس کے مطالبات کو نظر انداز کر رہے ہیں اور ماسکو کو سیکیورٹی کی ضمانتیں پیش کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ روس کے اس فوجی آپریشن کا مقصد یوکرین کی ڈی ملٹرائزیشن کو یقینی بنانا ہے، ہتھیار ڈالنے والے تمام یوکرینی فوجی جنگی زون سے بحفاظت نکل سکیں گے۔دھماکوں نے مشرقی یوکرینی شہر ڈونیٹسک کو بھی ہلا کر رکھ دیا جس کے بعد سویلین طیاروں کو خبردار کردیا گیا۔دارالحکومت کے مرکزی ہوائی اڈے کے قریب گولیوں کی آوازیں سنائی دیں تاہم روس کی فوجی کارروائی کا دائرہ کار فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا۔صحافیوں نے بحیرہ اسود کے بندرگاہی شہر اوڈیسا میں بھی دھماکوں کی آواز سنی۔روسی سرحد سے 35 کلومیٹر جنوب میں واقع ایک بڑے شہر خارکیف میں بھی دھماکے سنے گئے۔
صحافیوں نے بتایا کہ کراماٹوسک میں 4 زوردار دھماکے ہوئے، جو کہ مشرقی جنگی زون کے لیے یوکرین حکومت کے موثر علاقے کی حیثیت رکھتا ہے، دھماکوں کی مزید آوازیں مشرقی بندرگاہی شہر ماریوپول میں سنی گئیں۔روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی جانب سے یوکرین کے خلاف فوجی آپریشن شروع کرنے کے اعلان کے بعد ولادیمیر زیلنسکی نے فیس بک پر پوسٹ کیے گئے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے ملک بھر میں مارشل لا نافذ کردیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ان کی امریکی صدر جو بائیڈن سے فون پر بات ہوئی۔روسی زبان میں بات کرتے ہوئے ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ روس کے لوگوں سے یوکرین کے بارے میں جھوٹ بولا جا رہا ہے اور جنگ ہونے کا امکان بھی آپ پر منحصر ہے۔ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ انہوں نے پیوٹن کو فون کرنے کی کوشش کی لیکن وہاں کوئی جواب نہیں ملا، صرف خاموشی تھی۔انہوں نے مزید کہا کہ ماسکو نے اب یوکرین کی سرحدوں کے قریب 2 لاکھ فوجی جمع کردیے ہیں۔
روسی صدر کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ اس سے قبل ڈونیٹسک اور لوگانسک کے علیحدگی پسند رہنماؤں نے ولادیمیر پیوٹن کو علیحدہ علیحدہ خط بھیجے، جن میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ یوکرین کی جارحیت کو پسپا کرنے میں ان کی مدد کریں۔ادھرامریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ ان کی دعائیں ایسے وقت میں یوکرین کے عوام کے ساتھ ہیں جب وہ روس کے فوجی دستوں کے بلا اشتعال اور بلا جواز حملے کا شکار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صدر ولادیمیر پیوٹن نے پہلے سے سوچی سمجھی جنگ کا انتخاب کیا ہے جو تباہ کن جانی نقصان اور انسانی مصائب کو دعوت دے گی۔انہوں نے کہا کہ اس حملے سے ہونے والی ہلاکتوں اور تباہی کا ذمہ دار صرف روس ہے، امریکا اور اس کے اتحادی اور شراکت دار متحد اور فیصلہ کن انداز میں جواب دیں گے، دنیا روس کو جوابدہ ٹھہرائے گی۔انہوں نے کہا کہ وہ رواں ہفتے عائد مالیاتی اقدامات کے علاوہ روس پر مزید پابندیوں کا اعلان کریں گے۔
روس کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز اس وقت ہوا جب نیویارک میں یوکرین کے بحران پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس ہوا۔ایک مسودہ قرارداد جس میں روس کو اس کے پڑوسی ملک کے خلاف اقدامات پر متنبہ کیا گیا ہے، روس کے ویٹو پاور کی وجہ سے ناکام ہو جائے گا۔تاہم سلامتی کونسل کے ایک سفارت کار نے کہا کہ روس کو نوٹس جاری کیا جائے گا کہ یہ عمل بین الاقوامی قوانین کے مطابق نہیں ہے۔