جمعہ‬‮ ، 18 جولائی‬‮ 2025 

ہسپتالوں سے نکلنے والا 10فیصد فضلہ انتہائی خطرناک قرار

datetime 15  فروری‬‮  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی (این این آئی)پاکستان کے کسی بھی سرکاری اسپتال میں مریضوں کے بستروں سے نکلنے والے طبی فضلے کے اعدادوشمار دستیاب نہیں جس سے یہ معلوم کیا جاسکے کہ ایک مریض کے بستر سے یومیہ کتنا طبی فضلہ نکلتا ہے اور نکلنے والے طبی فضلے (ڈسپوزایبل)میں کتنے فیصد انفیکشن پھیلانے کا باعث بنتا ہے اور انفیکشن پھیلانے والا طبی فضلہ یومیہ، ماہانہ کتنے فیصد صحت

مند افراد کو متاثر کرتا ہے۔ صوبائی محکمہ صحت اور بلدیہ اعظمی کراچی کے ماتحت اسپتالوں میں ایسے اعدادوشمارہی نہیں جبکہ انفیکشن کنٹرول ڈیزیزکے ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ایک مریض کے بستر سے یومیہ ڈھائی سے تین کلو طبی فضلہ نکلتا ہے، اس میں ایک کلو انفیکشن پھیلانے والا طبی فضلہ شامل ہوتا ہے جس میں مریض کی استعمال شدہ سرنج، ڈراپس سیٹ،کینولا، بلڈ بیگ کا فضلہ شامل ہوتا ہے۔ صوبہ سندھ کے تمام سرکاری اسپتالوں سے نکلنے والا طبی فضلے کو صرف 5 ٹی چینگ اسپتالوں میں سائنسی بنیادوں پر تلف کیا جاتا ہے، اس فضلے کو تلف کرنے کیلئے گذشتہ سال پہلی بار ڈیپ ہیٹ اسٹیلایزیشن پلانٹ لگائے گئے تھے، ان میں سول اسپتال، جناح اسپتال، لیاری اسپتال، لیاقت یونیورسٹی جامشورو، بے نظیر بھٹو کالج(چانڈکا)اسپتال شامل ہیں۔ مریضوں کے بستروں سے نکلنے والے طبی فضلے کو ڈیپ ہیٹ اسٹیلایزیشن پلانٹ میں ڈال کر ایک ہزار ڈگری سینٹی گریڈ پر تلف یا جلایا جاتا ہے، جس میں تمام اقسام کے بیکٹیریا اور دیگر جراثیم تلف ہوجاتے ہیں لیکن یہ ڈیپ ہیٹ اسٹیلایزیشن پلانٹ سندھ کے صرف 5 اسپتالوں میں ہیں، کراچی میں محکمہ صحت اور بلدیہ عظمی کراچی کے ماتحت 37 اسپتال قائم ہیں جہاں ان اسپتالوں سے نکلنے والا طبی فضلے کو سائنسی بنیادوں پر اٹھایا جارہا ہے، بعض اسپتالوں میں خاکروں کے ذریعے ایک منظم گرو اس طبی فضلے کو غیر سائنسی بنیادوں پر اٹھوا کر ری سائی کیلنگ بھی کرایا جاتا ہے۔ کے ایم سی، محکمہ صحت کے ضلعی اسپتالوں کے پاس طبی فضلے کو سائنسی بنیادوں پر ٹھکانے لگانے کا ڈیپ ہیٹ اسٹیلایزیشن پلانٹ میسر ہی نہیں اور ان ضلعی اسپتالوں سے یومیہ بنیادوں پر نکلنے والا طبی فضلے کو کہاں اور کیسے ڈمپ کیا جارہا ہے یہ کسی کو بھی نہیں معلوم۔ اس وقت کراچی میں محکمہ صحت کے ماتحت چلنے والے سندھ گورنمنٹ نیو کراچی اسپتال، سندھ گورنمنٹ اربن ہیلتھ سینٹر نارتھ کراچی، سندھ گورنمنٹ لیاقت آباد اسپتال، سندھ گورنمنٹ سعودآباد اسپتال، سندھ گورنمنٹ کورنگی اسپتال، سندھ گورنمنٹ ابرائیم حیدری اسپتال، سندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال نارتھ کراچی، انسی ٹیوٹ آف اسکن ڈیزیز کراچی، بلدیہ عظمی کراچی کے سوبھراج اسپتال، کراچی انسی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز

سمیت دیگر اسپتالوں میں طبی فضلے کو سائنسی بنیادوں پر تلف کرنے کیلئے ڈیپ ہیٹ اسٹیلایزیشن پلانٹ موجود ہی نہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ ان اسپتالوں کے بعض اہلکاروں کی مدد سے اسپتالوں سے نکلنے والے طبی فضل کو نامعلوم ٹھیکاداروں کے ذریعے نامعلوم افراد سے اٹھوایا جاتا ہے اور نہ جانے اس فضلے کو کہاں پھنکا جاتا ہے۔ اس غیر ذمہ دران اقدام سے طبی فضلے کو غیر سائنسی بنیادوں پر

ٹھکانے لگانے سے مختلف امراض جنم لیتے ہیں۔ دریں اثنا عالمی اداراے صحت کے مطابق اسپتال کے ایک مریض کے ایک بستر سے 10 فیصد طبی فضلہ انتہائی خطرناک نکلتا ہے جو مختلف انفیکشن کا باعث بنتا ہے جبکہ باقی 90 فیصدفضلہ نارمل تصور کیا جاتا ہے۔ عالمی ادارے صحت کے مطابق 10 فیصد انفیکشن پھیلانے والے طبی فضلے کو اگر سائنسی بنیادوں پر ٹھکانے نہ لگایا جائے تو

پھر 100 فیصد طبی فضلہ انتہائی خطرناک ہوجاتا ہے۔ حکومت سندھ نے 2005 نے سرکاری، غیرسرکاری اسپتالوں، لیباٹریوں اور ڈسپنسریوں سے نکلنے والے طبی فضلے کو سائنسی بنیادوں پر ٹھکانے لگانے کیلئے اسپتال، ویسٹ مینیجمنٹ رولز بنائے تھے، اسپتال ویسٹ مینیجمنٹ رولز اور تحفظ ماحولیات ایکٹ 1997 ترمیم شدہ 2012 کے تحت محکمہ ماحولیات کے عملہ کو خصوصی

اختیارات بھی دیے گئے تھے، اس رولز کے مطابق اسپتالوں سے نکلنے والے طبی فضلے کو سائنسی بنیادوں پر ٹھکانے لگانے اور محفوظ مناسب جہگوں پر ڈمپ کیا جائے لیکن یہاں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ پاکستان میں قانون برائے تحفظ کے تحت اسپتالوں، دواخانوں، لیباٹریوں اور دیگر طبی خدمات فراہم کرنے والے ادارے ہر قسم کے مہلک، معتدی کو مجوزہ سائنسی طریقوں سے ٹھکانے لگانے

کے پابند ہیں لیکن صورتحال اس کے برعکس ہے۔ اسپتالوں کے طبی فضلے کو ٹھکانے لگانے کیلئے حکومت نے ہاسپٹل مینجمنٹ گائیدلائن بھی جاری کی تھی تاہم اسے نظرانداز کیا جاتا ہے۔ اسپتالوں سے نکلنے والے کم اور چھٹے طبی فضلے کو سائنسی بنیادوں پر ٹھکانے لگانے کا دوسرا طریقہ آٹوکلیو ہے جس میں ایک خاص درجہ حرارت کے ذریعے طبی فضلے کے خطرناک جراثیم کو تلف کیا جاتا ہے،

طبی فضلے کو مجوزہ طریقوں سے تلف کرنے کے بجائے عام گھریلو کوڑا کرکٹ کی طرح پھینکنے سے ماحولیاتی آلودگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا ہے اور معاشرے میں مختلف بیماریاں، ایڈز، ہپاٹاٹس جیسی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ دنیا کے تمام مملک اس مسائل سے دوچار ہیں مگر پاکستان میں یہ مسئلہ زیادہ گھمگیر صورتحال اختیار کررہا ہے۔ قواعد کے مطابق اسپتال میں استعمال ہونے

والی ڈسپوزایبل اشیا کو سائنسی بنیادوں پر تلف کرنا ضروری ہے اور اسپتال کے پر سیکشن میں انکیشن کٹر کا ہونا بھی لازم ہے لیکن لیباٹریوں اور بیشتر پرائیویٹ اسپتالوں میں صوتحال مخلتف ہے۔ پرائیویٹ اسپتالوں کا آلودہ ویسٹ تلف کرنے کے بچائے اس کو ندی نالوں میں میں بہا دیا جاتا ہے جس سے آلودگی کے ساتھ ساتھ مضر صحت نقصانات بڑھ رہے ہیں، واضع رہے کہ سرکاری اسپتالوں سے

نکلنے والے طبی فضلے کو بیشتر سرکاری اسپتالوں میں غیر سائنسی بنیادوں پر ٹھکانے لگایا جارہا ہے، بیشتر اسپتالوں میں کچرا جلانے والی ان سیل مشین بھی ناکارہ پڑی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ان سرکاری اسپتالوں سے نکلنے والا طبی فضلے کو منظم انداز میں مافیا فروخت کرنے میں مصروف ہے۔ اسپتالوں سے نکلنے والے طبی فضلے کو منظم انداز میں جمع کیا جاتا ہے اور اسپتالوں سے

ٹرک کے ذریعے رات کے اوقعات میں مخصوص مقامات پر لے جایا جاتا ہے جہاں تمام اسپتالوں کا طبی فضلہ جمع کیا جاتا ہے اور فروخت کیا جاتا ہے۔ ماہرین صحت نے بتایا کہ طبی فضلے کو کھلے عام پھینکنے سے جگہ جگہ انفیکشن جنم لیتے ہیں۔ پاکستان میں ایسی کوئی گائیڈ لائن موجود نہیں جس سے اسپتالوں سے نکلنے والے طبی فضلے کے اعدادوشمار اکٹھے کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ مریض کے

بستر سے نکلنے والے طبی فضلے میں مختلف بیکٹریا اور وائرس موجود ہوتے ہیں۔ انفلوائنز وائرس، ٹی بی کا جرثومہ، ہپتاٹاٹس بی اور سی ایچ آئی وی سمیت دیگر وائرس ایک سے دوسرے صحت مند افراد میں باآسانی منتقل ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، طبی فضلے کے نقصانات لاپروائی کی وجہ سے سامنے آرہے ہیں، اس لیے عوام اور اسپتالوں کے طبی عملے میں آگاہی ضروری ہے۔

طبی فضلے کو غیرسائنسی بنیادوں پر ٹھکانے لگانے سے مختلف جراثیم اور وائرس ایک سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں۔ کراچی میں عام کچرے اور طبی فضلے کو غیر بنیادوں پر نہ ٹھیکانے لگانے کی وجہ سے شہر میں مختلف امراض اور بیماریوں میں ہولناک اضافہ بھی ہورہا ہے۔ صوبائی محکمہ صحت میں 60 سال بعد بھی اسپتالوں سے طبی فضلے کے اعدادوشمار جمع کرنے کیلئے کوئی ادارہ ہے اور نہ ہی فوکل پرسن مقرر کیا گیا ہے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



حقیقتیں(دوسرا حصہ)


کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…