اسلام آباد،لاہور (این این آئی)کراچی کے صارفین کیلئے بجلی 3روپے 75مہنگی کر دی گئی اس حوالے سے نیپرا نے نوٹیفکیشن جاری کر دیا ۔ نوٹیفکیشن کے مطابق بجلی ستمبر کی فیول چارجز ایڈجسٹمنٹ مد میں مہنگی کی گئی ،اضافہ دسمبر کے بجلی بلوں میں وصول کیا جائے گا ،نیپرا نے ستمبر کی فیول ایڈجسٹمنٹ کیلئے نومبر میں سماعت کی تھی۔
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف نے بجلی کی قیمت میں پونے 4 روپے اضافے پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام ظلم اور آئی ایم ایف کی غلامی کا ثبوت ہے ،حکومت کے ظالمانہ اقدامات غریبوں اور معیشت پر بجلی بن کر گر رہے ہیں، اس فیصلے سے مہنگائی، بیروزگاری اور معاشی تباہی مزید بڑھے گی بجلی ،پٹرول اور گیس کی قیمتوںمیں اضافہ اور ٹیکسوں کو بڑھانا آئی ایم ایف کی غلامی ہے، حکومتی سوچ اور اقدامات کو مسترد کرتے ہیں ۔اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ عالمی منڈی میں تیل کی کمی کا ریلیف عوام کو منتقل نہیں کیاگیا بلکہ پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی اور سیلز ٹیکس کا نفاذ کرکے غریبوں کا مذاق اڑایا گیا ،موجودہ حکومت کے تین سال اور چار ماہ میں روپے کی قدر میں 54 روپے اضافے پر قوم وزیراعظم کو چور کیوں نہ کہے؟ ،40 ماہ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 30.5 فیصد سے زائد کمی ہوئی سقوط ڈھاکہ کے سانحہ کے وقت 58 فیصد روپے کی قدر
کے بعد سب سے بڑی مقدار میں روپے کی قدر میں کمی ہے، کیا یہ ہے نیا پاکستان؟۔انہوں نے کہاکہ قوم کو عوام کی منتخب کردہ ایک قابل، دیانتدار اور اہل قیادت کی ضرورت ہے ،قومی سلامتی، معاشی خودمختاری اور عوام کے گلے میں پھندا ڈالنے کے بجائے ناکامی کا اعتراف قومی مفاد میں ہے ،عمران نیازی اپنی اناء ، ضد، نالائقی اور کرپشن کی سزا قومی
سلامتی اور عوام کی زندگی سے کھیل کر نہ دیں ،افسوس ہے کہ پاکستان کوعالمی سطح پر آج ایک بحران زدہ ملک کے طورپر دیکھاجارہا ہے ،نوازشریف کے دور میں جو ملک دنیا کی بیس ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شمار ہورہا تھا، آج بحران زدہ کی فہرست میں شامل ہے ،غیرمنقولہ جائیداد کی ویلیو 35 سے 700 فیصد تک بڑھا کر فاش غلطی کی گئی ،اس اقدام سے
ملک میں کاروباری سرگرمیاں کم وبیش بند ہوجائیں گی، معیشت مزید سست روی کا شکار ہوگی ،اس اقدام کے بعد لوگ پراپرٹی کیسے خریدیں گے، ٹیکس وصولیاں بھی کم ہوجائیں گی ،فولاد، سیمنٹ بلاکس، اینٹوں اور تعمیراتی شعبے سے منسلک پچاس سے زائد صنعتوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے ، اس نوعیت کے اقدام سے قبل اس شعبے کے متعلقہ فریقین
سے مشاورت کی جانی چاہیے تھی ۔ انہوں نے کہا کہ ہاٹ منی کے اقدام پر بھی حکومت کو خبردار کیاتھا جس سے پہلے بھی معیشت کانقصان ہوچکا ہے ،2017 میں آئی ایم ایف پروگرام سے نکلنے کے بعد شرح سود 5.7 فیصد اور جی ڈی پی 5.8 فیصد پر تھا ،نوازشریف دور میں شرح ترقی بڑھنے کے ساتھ مہنگائی میں نمایاں کمی آئی، 47 سال میں ملک
مہنگائی میں سنگل ڈیجٹ میں آگیا تھا ،نوازشریف کا دور تاریخ کا واحد دور ہے جس میں آئی ایم ایف پروگرام کے باوجود شرح ترقی 5.8 فیصد سے بڑھی ،نوازشریف حکومت کی اس معاشی کارکردگی کی وجہ سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھا تھا، روپے کی قدر مستحکم ہوئی تھی ،موجودہ حکومت کے آئی ایم ایف پروگرام کے بعدشرح سود پونے 9 فیصد
اور مہنگائی پھر ڈبل ڈیجٹ میں جاچکی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت 800 ارب کے قریب نئے مالیاتی اقدامات کرنے جارہی ہے جس سے عوام اور معیشت پر بے تحاشہ دبائو بڑھے گا ،250 ارب روپے کی ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی اور 550 ارب کے نئے ٹیکس اقدامات ظلم درظلم کی کہانی ہے ،یہ اقدامات پاکستان کی معیشت کو آگ میں جھونکنے کے
مترادف ہیں، مہنگائی نے پہلے ہی عوام کی سانسیں چھین لی ہیں ،پاکستان کی ایکسٹرنل اکائونٹ پوزیشن پہلے ہی نازک ہے، ان اقدامات سے مزید مسائل پیدا ہوں گے ،معاشی ماہرین سوال اٹھا رہے ہیں کہ آئی ایم ایف سے موجودہ حکومت نے معاہدے پر قومی مفاد مد نظر رکھ کر ٹھیک طرح سے مذاکرات کیوں نہیں کئے؟،موجودہ حکومت ایک مالی سال میں جی ڈی پی کے 2 فیصد کے مساوی قرض لینا چاہتی تھی ، آئی ایم ایف نے منظوری نہ دی پاکستان کو ہائی جی ڈی پی گروتھ کی ضرورت ہے، اسی سے مسائل سے نکلا جاسکتا ہے جو اس حکومت کے بس کی بات نہیں۔