لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) پاناما لیکس کے 66 ماہ بعد پنڈورا پیپرز نے دنیا ہلاکر رکھ دی، پاناما پیپرز کے 11.5 ملین سے زائد خفیہ مالیاتی، قانونی ریکارڈ کے مقابلے میں پنڈورا پیپرز کی 11.9 ملین دستاویزات ۔روزنامہ جنگ میں صابر شاہ کی خبر کے مطابق پاناما پیپرز ، 11.5 ملین سے زائد خفیہ مالیاتی اور قانونی ریکارڈوں کا ایک بڑا رساؤ (leak) جس میں متعدد سربراہان مملکت اور حکومت
شامل ہیں نے 3اپریل 2016 کو دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا ، کے ٹھیک 66 ماہ بعدپنڈورا پیپرز نے اتوار کو عالمی کاروباری اور سیاسی اشرافیہ کو ہلا کر رکھ دیا۔ 11.9ملین دستاویزات کے ساتھ پنڈورا پیپرز اس طرح پاناما پیپرز سے بڑے ہیں، جو کہ دنیا کی چوتھی بڑی آف شور لاء فرم ’ میسرز موساک فونسیکا‘سے لیک ہوئی تھیں۔ لیک ہونے والی دستاویزات نے اشارہ کیا تھا کہ تقریباً 2 ٹریلین امریکی ڈالر فرم کے ہاتھوں سے گزر چکے ہیں۔ جیسا کہ آرکائیول ریسرچ ظاہر کرتی ہے کہ پاناما پیپرز میں 2لاکھ 14ہزار 488سے زائد آف شور کمپنیوں کی خفیہ معلومات تھیں، جن میں سے کچھ 12موجودہ یا سابقہ عالمی رہنماؤں سے؛ 128دیگر سرکاری عہدیدار اور سیاستدان؛ اور 200سے زائد ممالک کے سینکڑوں مشہور شخصیات ، تاجر اور دیگر امیر افراد سے تعلق رکھتی ہیں (حوالہ جات: دی گارڈین ، سیٹل ٹائمز ، کینساس سٹی سٹار اخبار ، بی بی سی نیوز اور رائٹرز وغیرہ)۔ پاناما لیکس میں جن اہم پاکستانیوں کے نام شامل ہیں ان میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف ، سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو ، فرخ عرفان (لاہور ہائی کورٹ کے جج) ، رحمان ملک (سابق وزیر داخلہ)
، جسٹس (ر) ملک قیوم اور سیاستدان انور، سیف اللہ، ہمایوں سیف اللہ ، عثمان سیف اللہ اور سلیم سیف اللہ وغیرہ شامل تھے۔ مجموعی طور پر پاناما پیپرز میں 444پاکستانی شہریوں کے نام شامل تھے۔ دستاویزات میں جن دیگر حکمرانوں کے نام شامل ہیں ان میں خلیفہ بن زید (متحدہ عرب امارات کے صدر) ، سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن سلمان ، سابق اطالوی وزیر اعظم سلویو برلسکونی وغیرہ سمیت کئی نام شامل ہیں۔
ویسے 5نومبر 2017کو بین الاقوامی کنسورشیم آف جرنلسٹس کی جانب سے پیراڈائز پیپرز جاری ہونے کے تقریباً 47 ماہ بعد پنڈورا پیپرز منظر عام پر آئے ہیں جو اتفاقی طور پر اتوار ہی تھا۔پیراڈائز پیپرز نے 1950سے 2016تک 180ممالک پر پھیلی 25 ہزار کمپنیوں کے اعداد و شمار کا انکشاف کیا تھا۔ ڈیٹا دستاویزات کا ایک بڑا حصہ تھا جو ایپل بائی کمپنی سے لیک ہوا تھا۔ سوئس بینک میں اکاؤنٹس رکھنے والے پاکستانی
افراد نے یا تو اپنے نام سے یا آف شور کمپنیوں کے ذریعے اکاؤنٹس کھلوائے تھے۔ سابق نیشنل انشورنس کارپوریشن لمیٹڈ (این آئی سی ایل) کے چیئرمین ایاز خان نیازی ، تاجر صدرالدین ہاشوانی ، میاں محمد منشاء کے نام سب سے نمایاں تھے۔ پیراڈائز پیپرز میں برطانیہ کے شہزادہ چارلس ، ان کی والدہ ملکہ الزبتھ دوم ، کولمبیا کے صدر جوآن مینوئل سانتوس اور امریکی وزیر تجارت ولبر روس کے نام بھی شامل تھے(حوالہ جات:نیو یارکر ، الجزیرہ ٹیلی ویژن ، تحقیقاتی صحافیوں کا
بین الاقوامی کنسورشیم ، اور بی بی سی نیوز)۔ یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ نومبر 2018 میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے پاناما پیپرز میں نامزد اپنے 294 ہم وطنوں کو نوٹس بھیجے تھے۔ اس وقت کے پاکستانی وزیر خزانہ اسد عمر نے یہ وعدہ کیا تھا کہ پاناما پیپرز میں درج تمام لوگوں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ یہ بھی انکشاف ہوا تھا کہ کم از کم 150 افراد لا پتہ تھے جبکہ کم از کم چار نے پہلے ہی اپنی پاکستانی شہریت ترک کر دی تھی۔ اس وقت کے پاکستانی وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ کم از کم 15 مقدمات کی تحقیقات، تقریباً 10.9 ارب پاکستانی روپے، آخری مراحل میں تھیں اور حکام نے 6.2 ارب روپے کی وصولی کی۔