کابل(مانیٹرنگ ڈیسک ٗاین این آئی)قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے جب یہ اعلان کیا کہ اب کابل میں نئی افغان حکومت کی جانب سے حلف برداری کی کوئی تقریب نہیں ہو گی، تو اکثر افراد کے ذہن میں یہ سوال گردش کرنے لگا کہ آخر ایسا کیوں کیا گیا؟بی بی سی اردو کے مطابق افغان صدارتی محل آرگ میں طالبان ذرائع نے بتایا کہ حلف برداری کی تقریب سکیورٹی
وجوہات کی بنا پر نہیں ہو رہی۔ذرائع کے مطابق طالبان کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے اُنھیں صرف یہی وجہ بتائی گئی ہے اور طالبان کو افغان عوام کی حفاظت کی خاطر حلف برداری کی تقریب ملتوی کرنا پڑی۔خیال رہے کہ اس سے قبل بیشتر طالبان ذرائع سے یہ اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ طالبان کی جانب سے 11 ستمبر کو تقریبِ حلف برداری منعقد کرنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے تاہم اس حوالے سے حتمی طور آخری دن تک کچھ واضح نہیں تھا۔تاہم سیاسی دفتر کے دوسرے ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم نے کہا کہ ’پہلے ہی سے ایسی کوئی بات نہیں ہوئی کہ حلف برداری کی کوئی تقریب ہو گی۔‘علاوہ ازیں افغانستان میں پاکستان کے سفیر منصور احمد نے کہاہے کہ کوشش ہے افغانستان میں مستحکم حکومت اور نظام آئے تاکہ ٹی ٹی پی، القاعدہ اور داعش جیسے دہشت گرد گروپ نہ پنپ سکیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق طالبان کی جانب سے کابینہ کے اعلان کے بعد افغانستان میں پاکستانی سفیر منصور احمد خان نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا ۔پاکستانی سفیر منصور احمد خان نے ایک خصوصی گفتگومیں کہا کہ افغان کابینہ کے ارکان نے اپنا کام شروع کر دیا ۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کے ساتھ مل کر کوشش کر رہے ہیں کہ افغانستان میں مستحکم حکومت اور نظام آئے تاکہ کالعدم ٹی ٹی پی، القاعدہ اور داعش جیسے دہشت گرد گروپ یہاں دوبارہ نہ پنپ سکیں۔منصور احمد نے مزید کہا کہ افغانستان کا سب سے بڑا چیلنج معیشت اور بینکوں کی بحالی ہے، اشیائے ضروریہ کی قلت پوری کرنے کے لیے پاکستان کے 3 جہاز کابل، قندھار اور خوست پہنچ چکے ہیں۔پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ قطر اور ترکی کابل ائیرپورٹ بحال کر رہے ہیں، آنے والے دنوں میں پاکستان سے افغانستان کے لیے کمرشل فلائٹس شروع کرنے کی کوشش ہے، پاکستان پہلا ملک ہے جس کی افغانستان کے ساتھ باقاعدہ فلائٹس ہوتی ہیں اور ہوں گی۔