آئندہ پاک افغان تجارت پاکستانی روپے میں ہوگی

9  ستمبر‬‮  2021

اسلام آباد (این این آئی) وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہاہے کہ افغانستان کی صورتحال غیر یقینی ہے اس کے ہمارے ملک پر کیا اثرات پڑیں گے، جائزہ لیا جارہا ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے مغرب میں اتنی پذیرائی نہیں ، افغانستان کے ساتھ تجارت ڈالر میں نہیں ،روپیہ میں ہو گی،افغانستان کو ڈالر کی کمی کا خدشہ پیدا

ہو گیااورافغانستان کے زرمبادلہ کے دس ارب ڈالر روک لیے گئے،پاکستان پر دباؤ پڑے گا،پاکستان کے ساتھ افغانستان کی تجارت بڑھے گی اور لین دین روپے میں ہوگا،اگلے چند ہفتوں میں چیزیں واضح ہونگی،افغانستان میں مختلف معمولات چلانے کیلئے پاکستان سے بھی لوگوں کو بھیج سکتے ہیں۔ جمعرات کو ایوان بالاء کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد طلحہ محمود کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں مالی سال2021ـ22 کے فنانس بل میں قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی جانب سے دی گئی سفارشات پر عملدرآمد، چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی کی جانب سے بھیجے گئے معاملہ برائے صوبہ بلوچستان کے علاقے چاغی کی عوام کے ساتھ کسٹمز کلکٹریٹ کی طرف سے نا انصافی و امتیازی سلوک، 13 جولائی2021 کو منعقد ہونے والے سینیٹ اجلاس میں سینیٹر سید فیصل علی سبزواری کی جانب پیش کی گئی قرار داد برائے کم آمدن تنخواہ دار طبقے اور چھوٹے تاجروں کیلئے

ٹیکس سے استثنیٰ کے معاملے کے علاوہ چیئرمین سینیٹ کی جانب سے عوامی عرضداشت کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں مالی سال2021ـ22 کے فنانس بل میں قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی جانب سے دی گئی سفارشات پر عملدرآمد کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔وزیر خزانہ شوکت فیاض احمد ترین اور چیئرمین ایف بی آر

ڈاکٹر محمد اشفاق احمد نے قائمہ کمیٹی کو تفصیلات سے آگا ہ کیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایوان بالاء کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے اچھی سفارشات مرتب کی تھیں جن کو متعلقہ پراسس سے گزارا گیا بے شمار سفارشات شامل کی گئیں ہیں کچھ سفارشات کو جزوی طور پر شامل کیا گیا اور کچھ کو شامل بھی نہیں کیا گیا، کل 110 سفارشات تھیں جن میں 46 مخصوص

اور 64 جنرل تھیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 110 سفارشات میں سے 51 سفارشات کو بجٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ 51 سفارشات میں سے کتنی جزوی شامل کی گئی ہیں اس کا تحریری طور پر جواب دیا جائے اور جن 59 کو شامل نہیں کیا گیا اس کی وجہ بھی بتائی جائے۔ قائمہ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ ادارے کی جانب سے جو

تفصیلات فراہم کی گئی ہیں پہلے ان کو پڑھا جائے اور پھر آئندہ اجلاس میں مزید جائزہ لیا جائے گا۔ وزارت خزانہ کے حکام نے کہا کہ وزارت خزانہ کے حوالے سے 4 سفارشات مرتب کی تھیں جن کوسو فیصد بجٹ میں شامل کیا گیا ہے۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمدطلحہ محمود نے وزیر خزانہ سے استفسار کیا کہ افغانستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں

ملکی تجارت، ایکسپورٹ، ایمپورٹ اور مجموعی طور پر ملک پر کیا اثرات مرتب ہونگے کے جواب میں بتایا گیا کہ ان دو ماہ میں معاشی صورتحال صحیح نظر آرہی ہے آمدن بڑھ رہی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم ٹریک پر ہیں۔ افغانستان کی صورتحال غیر یقینی ہے اس کے ہمارے ملک پر کیا اثرات پڑیں گے۔ جو تبدیلی آئی ہے اس کے کیا اثرات

ہونگے وغیرہ کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے مغرب میں اتنی پذیرائی نہیں ہے۔ شوکت ترین نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ تجارت ڈالر میں نہیں ہوگی بلکہ روپیہ میں ہو گی۔افغانستان کو ڈالر کی کمی کا خدشہ پیدا ہو گیااورافغانستان کے زرمبادلہ کے دس ارب ڈالر روک لیے گئے۔آئی ایم ایف اور عالمی بنک نے بھی افغانستان

کے 450 ارب ڈالر روک لئے ہیں۔پاکستان پر دباؤ پڑے گا۔ پاکستان کے ساتھ افغانستان کی تجارت بڑھے گی اور لین دین روپے میں ہوگا۔ اگلے چند ہفتوں میں چیزیں واضح ہونگی۔ ایمپورٹ بل میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔کیا گروتھ ریٹ پائیدار اور تسلسل سے ہوگا اس کو دیکھنا ہوگا۔ افغانستان کی صورتحال کا روزانہ کی بنیاد جائزہ لیا جارہا ہے اورافغانستان میں

مختلف معمولات چلانے کیلئے پاکستان سے بھی لوگوں کو بھیج سکتے ہیں۔ چیئرمین کمیٹی کے سوال کے جواب میں شوکت ترین نے کمیٹی کو بتایا کہ 30 ارب کی ایکسپورٹ کا دعویٰ کیا گیا تھا جو سچ ثابت ہوگا اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ وزیر خزانہ نے قائمہ کمیٹی کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ایف بی آر کی جانب سے لوگوں کو

نوٹسز جاری نہیں کیے جائیں اور جو جاری کیے گئے وہ واپس لئے جائیں اس پر کتنا عمل کیا گیا ہے۔ بزنس کمیونٹی بہت پریشان ہے جب تک وہ مطمئن نہیں ہوگے تجارت میں بہتری نہیں آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ یو ایس ڈالر کی قدر میں بھی بہت اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ موجودہ وزیر خزانہ نے جب چارج سنبھالا تھا تو یو ایس ڈالر کی قدر 152 روپے تھی اب

170 کے قریب پہنچ چکا ہے۔ جس پر وزیر خزانہ نے کہاکہ اسٹیٹ بینک اس پر کام کر رہاہے۔ انہوں نے ہی ڈالر کا لیول طے کرنا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ کامیاب پاکستان پروگرام ستمبر کے آخری ہفتے تک شروع کیا جائے گا اور اس میں شروعات صوبہ خیبر پختونخواہ اور صوبہ بلوچستان سے کی جائے گی اس حوالے سے وہ وزیراعظم پاکستان سے

درخواست بھی کریں گے۔سینیٹر فیصل رحمان نے کہا کہ افغانستان میں فوڈ سیکورٹی کے حوالے سے ہمارا کیا لائحہ عمل ہوگا اور سٹمز کو ہیک کیاجارہا ہے اس حوالے سے کیا طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے۔ سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ روز مرہ کے اخراجات کی وجہ سے لوگ خاصے پریشان ہیں۔ خاص طور پر غریب اور کم آمدن والے لوگ بری طرح متاثر

ہو رہے ہیں۔ ڈالر کی قدر میں روز اضافہ ہورہا ہے اس کو کنڑول کرنے کیلئے کیا میکنزم اختیار کیا گیا ہے۔جس پر وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ 2018ـ19 میں روپے کی قدر گرانی پڑی جس کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ لوگوں کے کاروبار متاثر ہوئے۔ طلب اور گروتھ ریٹ میں کمی ہوئی۔فوڈ پرائسز کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ پیٹرولیم

مصنوعات میں بھی 74 فیصد بین الاقوامی سطح پر اضافہ ہوا جبکہ پاکستان میں کم ریٹ پر اضافہ کیا گیا۔ ہمیں اپنی مقامی پیدا واروں میں اضافہ کرنا پڑے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ کھانے کی 10 اشیاء کی انجینئرنگ کرائی جا رہی ہے۔ کسانوں سے پانچ روپے فی کلو اشیا خرید کر صارفین کو 30 روپے کلو ملتی ہے۔ اس کو ٹھیک

کرنے کا میکنزم بنایا جارہا ہے۔ACs اورDCs کو ذمہ دار بنایا جائے گا۔ منڈیوں کے چیئرمین لگائے جائیں گے۔ پیداوار میں اضافہ اور کولڈ اسٹوریج تعمیر کیے جائیں گے۔ اگر افغانستان کیلئے یہاں سے اشیا جانی شروع ہوئی تو پاکستان میں کمی نہ ہو اس کا بھی جائزہ لیا جارہا ہے۔سسٹم ہیک کرنے کے حوالے سے شوکت ترین نے کمیٹی کو بتایا کہ بین الاقوامی ایکسپرٹ

ہائیر کر لیا گیا ہے۔2019 میں بھی سسٹم ہیک کیا گیا تھا جس کا معلوم نہیں ہو سکا تھا۔ اب پانچ دن کے اندر ہی سسٹم ٹھیک کر لیا گیا ہے۔ ہیک کرنے والے ڈیٹا تک نہیں پہنچ سکے تھے۔انڈین ہیکرز نے ایف بی آر کا سسٹم ہیک کیا تھا۔ ایف بی آر میں تمام سسٹم کو اپ گریڈکیا جا ئے گا۔سینیٹر سید فیصل علی سبزواری نے کہا کہ گزشتہ کمیٹی اجلاس میں سفارش کی تھی

اس پر عمل کیا گیا ہے کہ نہیں۔ جس پر وزیر خزانہ نے کہاکہ آئی ایم ایف نے 150 ارب کا مزید ٹیکس لگانے کا کہا تھا جس سے انکار کر دیا گیا ہے۔ ہم عوام پر مزید بوجھ نہیں ڈالیں گے۔پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا ابھی یہ معاملہ نہ اٹھایا جائے بعد میں اس پر عملدرآمد کر لیا جائے۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ مہنگائی

کو کنڑول کرنے کے حوالے سے مجسٹریٹ کو ذمہ داری دی جائے اور سپیشل مجسٹریٹ لگائے جائیں۔ انتظامی امور کی کمی کی وجہ سے مہنگائی پر قابو نہیں پایا جارہا ایک مارکیٹ میں اشیا کی چار چار قیمتیں ہیں۔وزیر خزانہ کی یقین دہانی کی وجہ سے سینیٹر سید فیصل علی سبزواری نے اپنے ایجنڈا واپس لے لیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اب لوگو ں کو نوٹسز

جاری نہیں کیے جا رہے اور جن کو بھیجے گئے ہیں وہ بھی واپس لے لئے جائیں گے۔چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی کی جانب سے بھیجے گئے معاملہ برائے صوبہ بلوچستان کے علاقے چاغی کی عوام کے ساتھ کسٹمز کلکٹریٹ کی طرف سے نا انصافی و امتیازی سلوک کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ کسٹم کی گریڈ1 سے8 کیلئے113

اسامیاں ہیں جن میں سپاہی، نائب قاصد اور ڈرائیور کی اسامیاں ہیں۔پراسس مکمل ہو چکا ہے۔ فائنل سلیکشن کرنی ہے۔ ہائیکورٹ کے حکم کے مطابق ڈومیسائل اور سریٹیفکیٹ کی تصدیق کی جا رہی ہے۔ 113 اسامیوں کیلئے 8094 درخواستیں آئی تھیں 170 کو شارٹ لسٹ کیا گیا ہے۔ چاغی سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کی 81 درخواستیں تھیں جن میں

سے29 ٹیسٹ انٹرویو کیلئے نہیں آئے 52 امیدواروں میں سے42 سے فائنل سلیکشن کیلئے کوالیفائی کر لیا ہے۔جس پر قائد ایوان سینیٹ سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ بھرتی کیلئے جب اشتہار دیا گیا تھا تو طریقہ کار صحیح نہیں تھا ملک اور خاص طور پ صوبہ بلوچستان کے پسماندوہ علاقوں کیلئے تعلیمی شعبے میں رعایت دی جاتی ہے جس کو

مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔ سپاہی، ڈرائیور اور نائب قاصد کیلئے صوبہ بلوچستان کے امیدواروں کیلئے میٹرک پاس کی شرط صحیح نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ فائنل سلیکشن کے پراسس کو روکا جائے۔ آئندہ اجلاس میں طریقہ کار طلب کیاجائے اور ہدایت دی جائے کہ پسماندہ علاقوں کے امیدواروں کیلئے تعلیمی طریقہ کار پر نظر ثانی کی جائے۔ جس

پر قائمہ کمیٹی نے فائنل سلیکشن کے پراسس کوقائمہ کمیٹی کے فیصلہ آنے تک روکنے کی ہدایت کر دی اور کہا کہ اگلے منگل تک طریقہ کار فراہم کیا جائے اور متعلقہ چیف کلکٹر کو تعلیمی طریقہ کار کا جائزہ لینے کی ہدایت بھی کر دی تاکہ اس پراسس کے اندر اندر متعلقہ لوگوں سے مشاورت کی جاسکے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ درمیانی

راستہ نکال کر مسئلے کا حل تلاش کیا جائے تاکہ پسماندہ علاقوں کے لوگوں کو ریلف فراہم کیا جا سکے۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی کی جانب سے ریفر کی گئی عوامی عرضداشت کا جائزہ لیا گیا۔ پٹیشنر نے قائمہ کمیٹی کو تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ عوامی عرضداشت میں رولز کے حوالے سے کی گئی ترامیم کو

چیلنج کیا گیا ہے۔وفاقی حکومت کی بجائے وزیر انچارج کو اتھارٹی بنانے سے مسائل پیدا ہونگے۔ بنیکوں کے اختیار میں بھی رود بدل کیا جارہا ہے۔ آغا خان فاؤنڈیشن جو حبیب بنیک کی خریدار ہے کے حوالے این بی پی کو دیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے تنخواہوں اور پنشن کو ڈیل کیا جائے گا۔افغانستان طرز کے معاملات بنائے جا رہے ہیں۔گورنر اسٹیٹ بینک

نے کمیٹی کو بتایا کہ اس عوامی عرضداشت میں جو معاملات اٹھائے گئے ہیں وہ میرٹ پر نہیں ہیں۔ قانون کے مطابق اسٹیٹ بنیک پاکستان ایک ریگولیٹری باڈی ہے اوربورڈ آ ف ڈائریکٹر کے فیصلوں کے مطابق کام کیا جاتا ہے۔اس عوامی عرضداشت کو مسترد کیا جائے۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ عوامی عرضداشت بہت سے صفحات پر مشتمل ہے

اس کو ختم کرتے ہیں۔ پٹیشنر دو صفحات پر مشتمل عوامی عرضداشت میں اپنا موقف بیان کر سکتا ہے۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں کشمیری حریت رہنما سید علی گیلانی کے انتقال کے حوالے سے اظہار افسوس اور ان کی کشمیریوں کیلئے جدوجہد آزادی کے حوالے سے خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے متفقہ طور پر قرار داد بھی پاس کی گئی۔ قرار داد میں

سید علی گیلانی کوخدمات کو بھر پو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ قرار داد میں کہا گیا کہ سید علی گیلانی مظلوم نہتے کشمیریوں کی ایک بلند پایہ آواز تھی جنہوں نے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے حصول کیلئے اپنی پوری زندگی وقف کر دی اور بھارتی ظلم و بربریت و انسانی حقوق کی بد ترین پامالی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ان کی وفات نہ صرف کشمیر بلکہ پاکستان

کیلئے بھی ایک بہت بڑا نقصان ہے۔ایوان بالاء کی قائمہ کمیٹی ان کی خدمات کو بھرپور خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں عطا اللہ مینگل کی وفات پر گہرے دکھ و افسوس اظہار کرتے ہوئے مرحوم کی خدمات کو خراج عقید ت پیش کرنے کیلئے متفقہ طور پر قرارداد منظور کی گئی۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں یوم دفاع کے

حوالے سے 1965 اور1971 جنگوں کے شہدا کے ایصال ثواب و درجات کی بلندی اور لواحقین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے ایک قرار داد متفقہ طور پر منظور کی گئی اور شہدا کی عظیم قربانیوں کو بھرپور خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد طلحہ محمود نے مرحوم سید علی گیلانی، مرحوم عطااللہ مینگل اور شہدا پاکستان کیلئے

کمیٹی اجلاس میں دعائے مغفرت بھی کرائی۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں قائد ایوان سینیٹ سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم، سینیٹرز کامل علی آغا، سعدیہ عباسی، سید فیصل علی سبز واری، فیصل سلیم رحمان کے علاوہ وزیر خزانہ شوکت ترین، سیکرٹری خزانہ، گورنر اسٹیٹ بینک، ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک، چیئرمین ایف بی آر اور متعلقہ اداروں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

موضوعات:



کالم



کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…