راولپنڈی (این این آئی)پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے کہا ہے کہ بس مجھے قتل کرنا رہ گیا ہے لیکن میں مرنے سے نہیں ڈرتا، غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا۔برطانوی جریدے دی ٹیلی گراف کے لیے جیل سے خصوصی طور پر لکھی گئی اپنی تحریر میں سابق وزیر اعظم نے کہا کہ آج پاکستانی ریاست اور اس کے عوام ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہیں، تقریباً دو سال پہلے میری حکومت کے خلاف ایک انجینئرڈ عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی اور اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے ایک حکومت وجود میں آئی۔انہوں نے کہا کہ اس کے بعد سے اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کے سیاسی منظر نامے سے میری پارٹی کی موجودگی کو ختم کرنے کے لیے ہر حربہ آزمایا ہے۔
عمران خان نے بتایا کہ ہمارے ساتھ ہونے والے جبر، تشدد اور انتخابی نشان دینے سے انکاری کے فیصلے کو بڑے پیمانے پر رپورٹ کیا گیا لیکن بے اختیار سویلین قیادت پر کچھ اثر نہیں ہوا۔انہوں نے اپنی تحریر میں لکھا کہ 8 فروری 2024 کو ہونے والے پاکستان کے عام انتخابات نے ان کے ڈیزائن کی مکمل ناکامی کو ظاہر کردیا ہے۔سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ایک ایسے ملک میں جہاں ووٹز کی اکثریت پارٹی کے نشان سے جماعت کو پہچانتی ہے وہاں انتخابی نشان نہ ہونے کے باوجود لوگوں نے باہر نکل کر میری پارٹی، پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کو بھاری اکثریت سے ووٹ دیا، باوجود اس کے کہ امیدواروں نے مختلف نشانات کے ساتھ آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔اسٹیبلشمنٹ پر سخت تنقید کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ پاکستانی عوام کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے کے خلاف یہ جمہوری انتقام نہ صرف عوام کی جانب سے مزاحمت تھی بلکہ اس نے 9 مئی 2023 کے سرکاری بیانیے کو بھی مکمل طور پر مسترد کردیا جس میں پی ٹی آئی کے حامیوں پر عسکری تنصیبات پر حملہ کرنے کا جھوٹے الزام لگایا گیا تھا۔
عمران خان نے کہا کہ بدقسمتی سے، عوامی مینڈیٹ کو قبول کرنے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ غیض و غضب کا شکار ہوگئی اور الیکشن میں ہارنے والوں کو اقتدار میں لانے کے لیے انتخابی نتائج میں تبدیلی کردی گئی، حالیہ ضمنی انتخابات میں بھی یہی ووٹ ٹیمپرنگ دیکھنے میں آئی۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ اس کے نتیجے میں آج پاکستان ایک خطرناک دوراہے پر کھڑا ہے، عوام نے ریاستی انتخابی سازشوں اور نہ صرف پی ٹی آئی کی اعلی قیادت بلکہ اس کے کارکنوں کے خلاف جبر، قید و بند اور اذیتوں کو مسترد کر دیا ہے۔انہوں نے اپنی تحریر میں لکھا کہ ریاست کا رد عمل صرف پارٹی کارکنوں کو نہیں بلکہ صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں پر بھی ظلم اور تشدد کرنا ہے، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندیاں لگادی گئی اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس مکمل طور پر بند ہے۔عمران خان نے کہا کہ عدلیہ کی آزادانہ کارروائی کو ہر سطح پر تباہ کرنے کی منظم کوشش شاید سب سے بدتر پیش رفت ہے۔انہوں نے بتایا کہ ججوں کو بلیک میلنگ اور ان کے خاندان کے افراد کو ہراساں کرنے سمیت ہر طرح کے دباؤ کا نشانہ بنایا گیا، نتیجتاً جھوٹے الزامات پر ہمارے مقدمے چلائے جاتے ہیں جس میں ہمیں مناسب دفاع کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی اور نہ ہی ملک کے قانون اور آئین کی کوئی فکر کی جاتی ہے۔انہوں نے لکھا کہ اعلیٰ ججز غیر جانبدارانہ انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔
عمران خان کے مطابق اعلیٰ عدلیہ کے ارکان عدلیہ کی آزادی کو تباہ کرنے کی کوشش کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 بہادر ججوں نے چیف جسٹس کو خط لکھا ہے جس میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے ان کے اہل خانہ کو ہراساں کرنے اور بلیک میل کیے جانے کے واقعات کو اجاگر کیا گیا، اس میں مخصوص مثالوں کا حوالہ اور ان کی تفصیلات دی گئی ہیں۔انہوںنے کہاکہ یہ ہماری تاریخ میں ایک بے مثال واقع ہے، اگرچہ غیر رسمی طور پر بہت سے لوگ جانتے تھے کہ اعلی عدلیہ کے ساتھ کیا ہو رہا ہے لیکن ان ججوں کی طرف سے اس طرح کا خط آنا مایوسی اور غصے کی حد کو ظاہر کرتا ہے۔عمران خان نے لکھا کہ بحران میں گھری ہوئی معیشت، بڑھتی ہوئی مہنگائی، سیاسی طور پر ناراض اور معاشی طور پر مشکلات کے شکار عوام کے درمیان ریاست تنہا ہوگئی ہے۔
انہوںنے کہاکہ ریاست اپنی سنگین غلطیوں کے ازالے کے لیے تیار نہیں ہے جس کی وجہ سے پاکستان اس نازک موڑ پر پہنچ گیا، بلکہ ریاست تو اسی راستے پر چل رہی ہے جس پر یہ 1971 میں چلی تھی، جب اس نے مشرقی پاکستان کو کھو دیا تھا۔دہشتگردی سے متعلق بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ساتھ ہی ریاست دہشتگردی میں اضافے اور بلوچستان میں بڑھتی ہوئی بیگانگی سے بھی واقف ہے جہاں جبری گمشدگیوں کا معاملہ شدت سے بڑھ رہا ہے، بھارت پہلے ہی پاکستان کے اندر قتل و غارت گری کا اعتراف کر چکا ہے اور افغانستان کے ساتھ بین الاقوامی سرحد بدستور غیر مستحکم ہے۔
انہوں نے لکھا کہ امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی حقوق سے متعلق تازہ ترین رپورٹس کی اشاعت کے بعد امریکا کو فضائی حدود تک رسائی اور اس سے متعلقہ سہولیات فراہم کرنے کے بدلے امریکا کی حمایت حاصل کرنے کی اسٹیبلشمنٹ کی توقعات پنکچر ہوگئی ہے، اس رپورٹ میں پاکستان میں انسانی حقوق کی بہت سی خلاف ورزیوں کو نمایاں کیا گیا ہے۔عمران خان نے بتایا کہ جب عوام کے ساتھ تصادم ہو تو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی حمایت پر انحصار کرنے سے پاکستان میں کوئی استحکام پیدا نہیں ہوگا، اس بحران سے نکلنے کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ عوام کا مینڈیٹ بحال کیا جائے اور تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے جن میں فوجی عدالتوں میں مقدمات بھگتنے والے افراد بھی شامل ہیں، ساتھ ہی ریاستی اداروں کی آئینی فعالیت کو بھی بحال کیا جائے۔انہوں نے لکھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے میرے خلاف ہر ممکن کوشش کی ہے، اب ان کے پاس بس مجھے قتل کرنا باقی رہ گیا ہے، لیکن میں نہیں ڈرتا کیونکہ میرا ایمان مضبوط ہے، میں غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا۔