ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں امریکی ڈرون آرکیو 170 ہیک کر کے فضا سے اتار لیا اور بعدازاں ’’ری ورس انجینئرنگ‘‘ کر کے ڈرون بنانے شروع کر دیے‘ یہ ڈرون کو ہیک کر کے اتارنے کا پہلا واقعہ تھا اور یہ ان کی ٹیکنالوجی میں مہارت کو ثابت کرتا ہے‘ ملک میں یونیورسٹیوں کی تعداد اسلامی ملکوں کے مقابلے میں زیادہ ہے‘ کل 314یونیورسٹیاں اورمیڈیکل کالج اور انجینئرنگ یونیورسٹیاں ان کے علاوہ ہیں‘ انجینئرنگ کالجز بہت مضبوط ہیں‘ سڑکیں‘ ٹنلز‘ آئل اور گیس کی تلاش‘ آٹو موبائل‘ ہارڈویئرز‘ معدنیات اور ٹولز یہ تمام انڈسٹریز لوکل انجینئرز اور ٹیکنالوجی سے چل رہی ہیں‘ اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے یہ لوگ باہر سے ٹیکنالوجی‘ آلات اور ماہرین نہیں منگوا سکتے لہٰذا انہوں نے اپنی ہر ضرورت ملک کے اندر پوری کر لی‘ زراعت کا محکمہ بھی بہت مضبوط ہے‘ یہ اپنی ضرورت کی تمام اجناس ملک کے اندر پیدا کر رہے ہیں‘
پورے ملک میں ہائی رائز بلڈنگز ہیں اور یہ بھی انہوں نے خود بنائی ہیں‘ کرنسی کی گراوٹ کے باوجود کسی حصے میں غربت نظر نہیں آتی‘ لوگ مطمئن‘ خوش حال اور خوش دکھائی دیتے ہیں‘ یونیورسٹی تک تعلیم فری ہے چناں چہ یونیورسٹیاں بھری ہوئی ہیں‘ کتابیں پڑھنے کا بہت رجحان ہے‘ دنیا جہاں کی کتابیں فوراً ترجمہ کرتے ہیں اور یہ لاکھوں کی تعداد میں بک جاتی ہیں‘ کتابیں چھاپنے کی ٹیکنالوجی بھی جدید اور مغربی معیار کی ہے‘ میں نے تمام بیسٹ سیلر کتابیں فارسی میں دیکھیں اور لوگ یہ خرید بھی رہے تھے‘ لائبریریاں خوب صورت اور وسیع ہیں‘ کتابوں کی دکانوں میں کافی اور چائے کے کارنر ہیں اور آپ چائے کافی لے کر بک شاپ میں پوری کتاب پڑھ سکتے ہیں‘
دکان دار آپ کو نہیں روکے گا‘ مجھے مشہد میں فردوسی یونیورسٹی کے ایسٹ سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں جانے کا اتفاق ہوا‘ وہاں ڈیڑھ درجن پروفیسر بیٹھے تھے‘ میں ان کے سوالوں اور نظم وضبط سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا‘ ان میں تین لوگ پاکستان کے ماہر تھے اور ہمارے ملک کے بارے میں ہم سے زیادہ جانتے ہیں‘ انگریزی جاننے والے لوگ بہت کم ہیں مگر لوگ اب ٹیوشن رکھ کر انگریزی سیکھ رہے ہیں‘ ایران نے مہنگائی اور غربت کا خوب مقابلہ کیا‘ میں اگر آپ کو یہ بتائوں دنیا میں مہنگائی سرے سے کوئی ایشو نہیں اور پاکستان میں بھی مہنگائی نہیں ہے تو آپ یقینا مجھے برا بھلا کہیں گے مگر حقیقت یہی ہے مہنگائی ہمارے ملک میں مسئلہ ہے اور نہ دنیا کے دوسرے خطوں میں‘ اصل ایشو آمدنی ہے‘ آپ کی آمدنی اگر مہنگائی سے دو چار گنا زیادہ ہے تو پھر آپ کو ہر چیز سستی محسوس ہو گی‘ ہمارے ملک کا مسئلہ بھی آمدنی ہے‘ ہمارے لوگوں کی آمدنی مہنگائی سے کم ہے‘
میں اکثر اپنے سیاست دانوں سے درخواست کرتا رہتا ہوں آپ جتنا زور مہنگائی کم کرنے پر لگا رہے ہیں آپ اگر اس سے آدھی توجہ آمدنی پر دے دیں تو عوام کے مسئلے حل ہو جائیں گے مثلاً ہم اگر آج ملک میں کم از کم آمدنی لاکھ روپے کر دیں تو کل سے لوگوں کو آٹا‘ دال‘ چینی‘ دودھ‘ دہی‘ بجلی‘ گیس اور پٹرول سستا محسوس ہونے لگے گا ‘ہماری حکومت کو چاہیے یہ دل بڑا کر کے اس بجٹ میں کم سے کم آمدنی لاکھ روپے کر دے‘ اس سے ایک بار پوری اکانومی کو جھٹکا لگے گا مگر سال چھ ماہ میں ہر چیز درست سمت میں چل نکلے گی لیکن اس سے قبل حکومت کو ایک اور کام کرنا ہوگا‘ اسے اکانومی کو کرنسی نوٹ سے کارڈ پر شفٹ کرنا ہو گا‘ اکانومی کا سب سے بڑا بگاڑ کرنسی نوٹ ہیں‘ حکومت کو زیادہ نوٹ چھاپنے پڑتے ہیں اور ان سے پوری معیشت بیمار ہو جاتی ہے‘
اس کے برعکس اگر تمام پے منٹس کارڈز کے ذریعے ہوں گی تو پیچھے صرف ڈیجٹس رہ جائیں گے کوئی کسی کو کچھ دے گا اور نہ لے گا اور یوں معاشی پہیہ چل پڑے گا‘ ایران نے یہی کیا‘ یہ لوگ پوری معیشت کو کارڈز اور آن لائین پے منٹس پر لے گئے ہیں اور لوگوں کی کم سے کم آمدنی میں اضافہ کر دیا ہے چناں چہ لوگوں کو اب مہنگائی محسوس نہیں ہوتی‘ ہم ایران سے یہ آرٹ بھی سیکھ سکتے ہیں۔
ایران کا دوسرا کمال سیاحت ہے‘ میں 116 ملک گھوم چکا ہوں‘ میرے اس تجربے کی وجہ سے ہرحکومت مجھ سے پاکستان کی ٹورازم ڈویلپ کرنے کا نسخہ مانگتی ہے‘ میرا صرف ایک جواب ہوتا ہے آپ جب تک لوکل ٹورازم ڈویلپ نہیں کریں گے اس وقت تک باہر سے سیاح نہیں آئیں گے‘ ایران پر اقتصادی پابندیاں ہیں‘ وہاں یورپ اور امریکا سے کوئی شخص نہیں آتا لیکن اس کے باوجود ان کی ٹورازم ٹھیک ٹھاک ہے‘ اس کی وجہ لوکل ٹورازم ہے‘ یہ لوگ سفر بھی کرتے رہتے ہیں اور سیر بھی جس سے ہوٹل‘ ریستوران اور شاپنگ کی انڈسٹری چل رہی ہے‘ چھٹیوں کے دنوں میں ہائی ویز‘ ہوٹلوں اور ریستورانوں میں جگہ نہیں ملتی‘ ہم بھی اگر پاکستان میں سیاحتی انڈسٹری کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں لوکل ٹورازم پر توجہ دینی ہو گی‘ حکومت کو چاہیے یہ ہوٹلوں اور ریستورانوں کے لیے باقاعدہ پالیسی بنائے‘
ہر شہر میں سیاحتی مقامات کے لیے جگہیں مختص کر دے اور لوگوں کی ان جگہوں پر تعمیرات کے لیے حوصلہ افزائی کرے‘ ایران میں لاء اینڈ آرڈر بہت اچھا ہے‘ سٹریٹ کرائمز اور ہراسانی کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں چناں چہ لوگ ہر شام گھروں سے باہر نکلتے ہیں جس کی وجہ سے کافی شاپس‘ چائے خانوں اور ریستورانوں کی انڈسٹری چل رہی ہے‘ ہم بھی یہ کر سکتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ گھروں سے باہر نکلیں‘ اس سے بھی معاشی پہیہ چل پڑے گا‘ حکومت رات آٹھ بجے شاپنگ سنٹر بند کرا دے لیکن ریستوران اور کافی شاپس رات دو بجے تک کھلی رہیں‘ اس سے سماجی اور اقتصادی دونوں تبدیلیاں آئیں گی۔ ایرانی بھی پاکستانیوں کی طرح غیر مطمئن لوگ ہیں‘
ہم جس طرح ہر حکومت اور ہر نظام کے خلاف ہیں‘ ہم جمہوری ادوار میں فوج کو بلاتے ہیں اور جب فوج آ جاتی ہے تو ہم جمہوریت کی بحالی کی تحریکیں شروع کر دیتے ہیں بالکل اسی طرح ایرانی بھی ہر نظام کے خلاف ہیں‘ ان لوگوں نے بڑی قربانیوں سے شاہ ایران سے جان چھڑائی لیکن یہ اب دوبارہ شاہ کے زمانے کی آزادیوں کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں‘ یہ ملک میں رقص خانے (ڈسکوز)‘ شراب خانے اور مکمل یورپی لباس چاہتے ہیں‘ میرا مشاہدہ ہے یہ لوگ جس دن اس میں کام یاب ہو گئے یہ اگلے دن دوبارہ اسلامی انقلاب کے لیے مارچ شروع کر دیں گے‘ ایران اور پاکستان کے لوگوں میں یہ عادت کامن ہے۔
مجھے چند ایرانی گھروں میں بھی جانے کا اتفاق ہوا‘ مشہد میں آرکی ٹیکٹ علی نصیری کے گھر گیا‘ ان کی بیگم ملیحہ تجعفری مصورہ ہیں اور یہ دونوں میاں بیوی مل کر کام کرتے ہیں‘ ایرانی گھر اندر سے صاف ستھرے لیکن سادہ ہوتے ہیں‘ ان کا گھر پرانے محلے میں تھا‘ یہ بھی باہر سے عام سے دکھائی دیتا تھا لیکن اندر سے وسیع اور خوب صورت تھا‘ ان کے ساتھ بہت گپ شپ ہوئی‘ خواتین گھر میں حجاب نہیں لیتیں اور یہ مردوں کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ بھی کرلیتی ہیں‘ یہ عادت ثابت کرتی ہے ان کی خواتین بااعتماد اور تگڑی ہیں‘ ماڈرن لوگ بچے پیدا نہیں کرتے اور اگر کرتے ہیں تو ان کے بچے ایک یا دو سے زیادہ نہیں ہوتے جب کہ پاس داران انقلاب کے پانچ سے سات بچے ہوتے ہیں‘
اس وجہ سے ایران میں ماڈرن لوگ سمٹتے اور مذہبی لوگ بڑھتے جا رہے ہیں‘ان دونوں میاں بیوی کی بھی ایک بیٹی تھی‘ مجھے حسین باقری کے گھر بھی جانے کا موقع ملا‘ حسین کا بھی صرف ایک بیٹا ہے تاہم ان کی بیگم کے ماموں اپنے بچوں کے ساتھ آئے‘ ان کے دو بچے تھے‘ حسین باقری کی بیگم الہام بہت اچھا کھانا بناتی ہیں‘ میں نے ان کے کھانے اور باتوں دونوں کو بہت انجوائے کیا‘ایرانی گھروں کے اندر کا ماحول بہت اچھا ہوتا ہے‘ یہ لوگ لڑتے جھگڑتے نہیں ہیں بالخصوص کھانے کے دوران اختلافی گفتگو نہیں کرتے‘ پورے ایران میں کھانا بنانے اور کھلانے کی روایت ہے‘ یہ روایت ریستورانوں میں بھی ہے لہٰذا ویٹرز اور کک دل سے سروس دیتے ہیں‘
مجھے ایران میں دس دنوں میں 25 مختلف ریستورانوں پر کھانا کھانے کا موقع ملا‘ کسی ریستوران کا کھانا برا نہیں تھا اور کسی ویٹر کی سروس خراب نہیں تھی اور یہ لوگ یہ کام ٹپ کے لالچ میں نہیں کرتے دل سے کرتے ہیں‘ ڈرائی فروٹ اور چائے بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں‘ آپ کسی جگہ چلے جائیں آپ کو میز پر تازہ پھل‘ ڈرائی فروٹس اور دودھ کے بغیر چائے ملے گی‘ چائے ترکی سٹائل کی ہوتی ہے‘ یہ پتی کو پانی میں ڈال کر مسلسل پکاتے ہیں اور پھر اس میں گرم پانی ڈال کر دودھ کے بغیر پیتے ہیں‘ چینی ڈلیوں کی شکل میں پیش کرتے ہیں‘
مہمان چینی کے کیوب اٹھا کر منہ میں رکھ لیتا ہے اور اوپر سے چائے کا گھونٹ بھرتا رہتا ہے یوں چینی تھوڑی تھوڑی منہ میں گھلتی رہتی ہے‘ ہر شہر کی کوئی نہ کوئی لوکل ڈش ضرور ہے اور یہ عموماً صرف اسی شہر سے ملتی ہے مثلاً شیراز کا حلوہ بہار نارنج اور غم برپلو بہت مشہور ہیں‘ غم برپلو شیرازی پلائو ہے جس کے بارے میں مشہور ہے یہ غم اور ٹینشن دور کر دیتا ہے جب کہ حلوہ زعفران سے بنتا ہے اور یہ واقعی لاجواب ہے‘ اصفہان کی بریانی اور خورشتہ مست(یہ زعفران اور گوشت کے ذریعے بنائی جاتی ہے اور بے انتہا لذیذ ہے) پوری دنیا میں مشہور ہیں جب کہ مشہد کے چلو کباب‘پلوما ھیچہ شاندیز کا شیشلک کباب‘ تہران کا بکلائو پلائو(اس میں چاول‘ لوبیا اور گردن کا گوشت ہوتا ہے) اور قم کا سوہان حلوہ (سوہن حلوہ) لاجواب ہیں‘ کاشان کی سبزیاں بھی انتہائی لذیذ ہوتی ہیں۔
ایران میں لوگ جوتے لے کر گھروں میں داخل نہیں ہوتے‘ یہ اس سلسلے میں جاپانی ہیں‘ فرشوں پر قالین بچھانے کا بہت رجحان ہے‘ خواتین انتہائی سلیقہ شعار‘ مہذب اور مہمان نواز ہیں‘ ایرانی لوگ اپنے ملک سے بہت محبت کرتے ہیں‘ یہ ایران کے خلاف بات نہیں سنتے‘ امریکا کے خلاف ہیں لیکن امریکی مصنوعات بہت پسند کرتے ہیں‘ مردوں کو گھڑیاں باندھنے اور عورتوں کو ہلکے زیور پہننے کا بہت شوق ہے‘ لوگوں کو محاورے بہت یاد ہوتے ہیں‘آپ جس سے بات کرتے ہیں وہ محاورے میں جواب دیتا ہے‘ قصہ مختصر ایران ایک ایسا ملک ہے جس کی بار بار سیاحت کی جا سکتی ہے لیکن اس کے باوجود دل نہیں بھرے گا۔