لاہور(مانیٹرنگ، این این آئی)چند ماہ قبل دنیا کی بہترین کرنسی قرار دیے جانے والا روپیہ اب ایشیا کی سب سے بدترین کرنسی قرار دے دیا گیا ہے،معاشی ماہرین کے مطابق گزشتہ چار ماہ کے دوران ایشیا کے کسی ملک کی کرنسی پاکستانی روپے سے زیادہ تنزلی کا شکار نہیں ہوئی، ماہرین کے مطابق پاکستانی روپے کی قدر میں گزشتہ چار ماہ کے دوران 14 روپے سے زائد کی کمی واقع ہوئی ہے،
معاشی ماہرین نے ڈالر کی قیمت 170 روپے کی سطح عبور کرجانے کا دعویٰ کیا ہے۔ دوسری جانب چیئرمین فاریکس ایسوسی ایشن ملک بوستان نے کہا ہے کہ مختلف وجوہات کی بناء پر ڈالر کی قدرمیں اضافہ اورروپے پر دباؤ بڑھ رہاہے،حکومت کوافغانستان جانے والوں کیلئے 10ہزار ڈالر کی حد کم کرکے ایک ہزار ڈالر تک محدود کرنی چاہیے۔چیئرمین فاریکس ایسوسی ایشن ملک بوستان کے مطابق ملک میں درآمدات کا حجم بڑھ رہا ہے اور رواں سال جولائی میں بھی درآمدات میں 45فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت اگلے پانچ ماہ میں 10کروڑ کرونا ویکسین کی خوراکیں درآمد کرے گی، درآمدات کی مد میں رقم کی ادائیگی ڈالر میں ہونے سے ڈالر کی طلب میں اضافہ ہوا اور قیمت بڑھ گئی۔ملک بوستان کے مطابق پہلے افغانستان سے پاکستان کو امداد ملتی تھی لیکن اب افغانستان میں ڈالر اور اشیائے ضروریات کی طلب پوری کرنے کے لیے پاکستان مدد فراہم کررہا ہے۔قانونی طور پر افغانستان جانے والے کو 10ہزار ڈالر ساتھ لے جانے کی اجازت ہے اس سہولت کا بھی غلط فائدہ اٹھایا جاتا ہے،حکومت کو 10ہزار ڈالر سے یہ حد کم کرکے ایک ہزار ڈالر تک محدود کرنی چاہیے کیونکہ افغانستان میں ڈالر قیمت زیادہ ہے اس لئے پاکستان سے جانے والے افراد زیادہ سے زیادہ ڈالر خرید کر منافع کمانے کی غرض سے افغانستان لے کر جارہے ہیں۔
ملک بوستان کے مطابق پچھلے تین سال میں پاکستان نے تقریباً 39 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی ہے اور اگلے دو سال میں مزید 50 ارب ڈالر قرضے کی ادائیگی کرنی ہے جس سے ڈالر پر کافی دباؤبڑھ گیا ہے۔اسکے علاوہ کچھ عرصہ پہلے پاکستان 3 سے 4 ارب ڈالر کی برآمدات افغانستان کو کرتا تھا جو اب کم ہوکر ایک
ارب ڈالر رہ گئی ہیں اگر افغانستان کے حالات بہتر ہوتے ہیں تو برآمدات دوبارہ اپنی نارمل سطح پر آجائے گی۔کرنسی کے کاروبار سے وابستہ ظفرپراچہ نے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ امریکی فوج کے انخلا ء کے بعد امریکہ نے افغانستان کے تقریباً 90 لاکھ ڈالر منجمد کرلیے ہیں جس کے بعد افغانستان میں ملازمین کی تنخواہیں دینے کے
لیے پیسے کم پڑ گئے ہیں اور افغانستان میں ڈالر کی طلب میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے، پچھلے 3 روز سے بڑی تعداد میں پاکستان سے ڈالر کی اسمگلنگ ہو رہی ہے۔امید کی جارہی تھی کہ امریکی افواج کے انخلا ء کے بعد افغانستان کے حالات اچھے ہوجائیں گے لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوسکا اور صورتحال دن بدن غیر یقینی ہوتی جا
رہی ہے، جس کے اثرات پاکستان پر ڈالر کی قیمت مسلسل بڑھنے کی صورت میں مرتب ہورہے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ماضی میں اٹھائے گئے مثبت اقدامات کے اثرات زائل ہوتے نظر آرہے ہیں اور حکومت پاکستان کی عدم توجہ بھی ڈالر کی اسمگلنگ کو بڑھا رہی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اسٹیٹ بینک کے ساتھ
مل کر ایسے اقدامات اٹھائے جس سے ڈالر کی قیمت میں کمی آسکے۔ظفر پراچہ کے مطابق عالمی مارکیٹ میں آئل کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ کرونا وبا ء کے باعث آئل کی درآمدات کی مد میں رکے ہوئے بلوں کی ادائیگی کا وقت بھی آگیا ہے جس سے درآمدی بل میں اضافہ ہوا اور ڈالر پر دباؤبڑھ گیا ہے۔ظفر پراچہ کے
مطابق گزشتہ مالی سال پاکستان کی برآمدات، ترسیلات زر اور زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے اور اگر حکومت کا آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے کوئی معاہدہ نہیں ہوا تو روپے کی قدر میں کمی کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی اور ایک سے ڈیڑھ ماہ میں ڈالر کی قیمت دوبارہ 160 روپے کی حد تک آجائے گی۔