ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

حکومت خطے کی بڑی تبدیلی سے لاتعلق، معاملات اسٹبلشمنٹ طے کررہی ہے، مولانا فضل الرحمن

datetime 27  اگست‬‮  2021
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ملتان (این این آئی)جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ عمران حکومت خطے کی اس بڑی تبدیلی سے لاتعلق ہے، یہاں اسٹیبلشمنٹ معاملات ڈیل کررہی ہے اور حکومت کا کوئی کردار نظر نہیں آ رہا۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ نے کہا کہ قوم کو عام انتخابات چاہئیں، ہماری عدلیہ چھوٹے موٹے مسائل

پر ازخود نوٹس لیتی ہے تاہم 25جولائی 2018 کا الیکشن پاکستان کی تاریخ کا بدترین واقعہ تھا اور قومی سطح پر اس کے خلاف احتجاج بلند ہوا۔انہوںنے کہاکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عدلیہ اس انتخابات کو کالعدم قرار دیتی، عوامی احتجاج کا احترام کیا جاتا اور ازسرنو نئے انتخابات کے لیے ہدایات جاری کرتے، آج جب مسئلہ قومی سطح پر عام انتخابات کا ہے تو بلدیاتی انتخابات قوم کا مطالبہ نہیں ہے لہٰذا عوام کے مطالبات کا احترام کیا جانا چاہیے۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ حال ہی میں خواتین کی بے حرمتی اور نوجوان نسل کی بے راہ روی کے حوالے سے لاہور میں جو واقعات رونما ہوئے، اس پر تعجب کی بات یہ ہے کہ ہمارا ناجائز حکمران قوم کو حیا کی تعلیم دے رہا ہے حالانکہ بے حیائی اور فحاشی ان کا ایجنڈا ہے اور نئی نسل کی بے راہ روی میں عمران خان اور ان کی پارٹی کی ذہنیت اور ایجنڈے کا بہت بڑا دخل ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں نئی نسل کو راہ راست پر لا کر باوقار اور باعزت معاشرہ تشکیل دیناہے تو اس کے لیے ایسے حکمرانوں کا خاتمہ ضروری ہے جو ملک میں مادر پدر آزاد معاشرے کو تشکیل دینے کے لیے وسائل استعمال کرتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ اس وقت افغانستان میں طالبان امارات اسلامیہ نے جو فتوحات حاصل کی ہیں اور اس کے باوجود وہ اپنی حکومت کے بجائے ایک وسیع البنیاد حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں تو ہم اس حکمت عملی کی حمایت کرتے ہیں

اور عالمی قوتوں سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی شرائط نہ لگائیں۔جمعیت علمائے اسلام(ف) کے قائد نے کہا کہ عالمی قوتوں کی 20سالہ پالیسیوں نے انسانیت کا خون کیا ہے اور جن کے ہاتھوں سے انسانیت کا خون ٹپک رہا ہو ان کے منہ میں امن کی بات عجیب لگتی ہے، انہیں اپنا جرم اور غلطی تسلیم کر لینی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ

افغانستان میں 20سالہ جنگ کے ہم پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور اگر وہاں پرامن معاشرہ تشکیل پاتا ہے تو اس کے مثبت اثرات بھی پاکستان پر مرتب ہوں گے اور خطے میں ایک یکجہتی کی فضا تشکیل پائے گی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افغانستان میں یقیناً ایسی قوتیں ہیں جو طالبان کی فتوحات اور پرامن سیاسی نظام کو

سبوتاژکرنا چاہتی ہیں تاہم میری معلومات کے مطابق جن جگہوں پر کشیدگی ہے، وہاں معاملات حل ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ایک اور سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ بدقسمتی سے اس وقت پاکستان کی خارجہ پالیسی موجود ہی نہیں ہے، عالمی برادری پاکستان کو کسی بھی ایسے فورم پر بیٹھنے کی حقدار نہیں

سمجھتی کہ جس میں ہم پاکستان کو اسٹیک ہولڈر تصور کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں پاکستان کے نمائندے کو بات نہیں کرنے دی گئی، ان امور میں پاکستان کی وزارت خارجہ کا اس وقت کوئی کردار نہیں ہے اور اگر ہے تو پس پشت ہی کوئی کارکردگی ہو گی۔انہوںنے کہاکہ عمران حکومت خطے کی اس بڑی تبدیلی

سے لاتعلق ہے، یہاں اسٹیبلشمنٹ معاملات ڈیل کررہی ہے، وہی فرنٹ پر ہے اور حکومت کا کوئی کردار نظر نہیں آ رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے وزیر خارجہ شریف آدمی ہیں اور وہ کارکردگی دکھانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن اس کے عالمی سیاست پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ اگر انہیں طالبان کی طرف

سے کردار ادا کرنے کا کہا جاتا ہے تو وہ کیا کریں تو اس پر ان کا کہنا تھا کہ میں ایک سیاسی کارکن ہوں، ایک طویل عرصہ خارجہ امور سے وابستہ رہا ہوں، خارجہ امور کسی فرد یا پارٹی کی نہیں بلکہ ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے اور میں ریاست سے آگے نہیں نکلنا چاہتا۔جے یو آئی(ف )کے سربراہ نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ

کے حوالے سے سوال پر کہا کہ ہم ایک جمہوری جدوجہد کررہے ہیں، ہم نے اپنا نظریہ برقرار رکھا ہے اور عام آدمی نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے کہ یہ حکومت ناجائز اور نااہل بھی ہے۔انہوں نے کہاکہ پیپلز پارٹی اپنا راستہ جدا کر چکی ہے اور ہم ان کی تمام کمزوریاں جانتے بوجھتے بھی اس لیے زیر بحث نہیں لانا چاہتے کہ ہم کئی محاذ نہیں کھولنا چاہتے اور پی ڈی ایم کے اعلامیے اور قوم سے جو ہمارا وعدہ ہے، اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ایک

سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پی ڈی ایم کے فیصلے شہبازشریف خود نہیں کیا کرتے، یہ 9 جماعتوں کا فورم ہے اور سب مل کر اپنی پالیسی طے کرتے ہیں، کراچی میں سربراہی اجلاس ہے اور پرسوں ایک فقیدالمثال جلسہ ہو گا جس میں عوام کی بڑی تعداد میں شرکت متوقع ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں عمران یا تحریک انصاف کی کوئی حکومت نہیں ہے، حکومت اسٹیبلشمنٹ کی ہے اور وہ سویلین معاملات، خارجہ پالیسی اور اندرونی معاملات سمیت تمام امور دیکھ رہے ہیں اور نمائش کے لیے ان کو سامنے لے آتی ہے۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…