نیویارک ، اسلام آباد /واشنگٹن (این این آئی )فیس بک نے تصدیق کی ہے کہ وہ طالبان کو ایک دہشت گرد تنظیم تصور کرتا ہے اور اسی لیے وہ اپنے پلیٹ فارم پر ان کی جانب سے مواد اپلوڈ کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ایک بیان میں کمپنی نے بتایاکہ انھوں نے افغان شہریوں پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی ہے جو طالبان کی
حمایت میں پوسٹ کیے گئے مواد کی نشاندہی کر کے اسے ہٹانے کا کام کر رہی ہے۔اس پالیسی کا اطلاق فیس بک کے دیگر پلیٹ فارمز مثلا انسٹا گرام اور واٹس ایپ پر بھی ہوگا۔واضح رہے کہ اطلاعات کے مطابق طالبان آپس میں رابطہ رکھنے کے لیے واٹس ایپ کا استعمال کرتے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان، چین، روس، بھارت اور ترکی کے وزائے خارجہ اور برطانیہ کے سیکریٹری خارجہ ان اعلیٰ سفارتکاروں میں شامل تھے جن سے امریکی سیکریٹری خارجہ اینٹونی بلنکن نے رابطہ کیا۔انہوں نے نیٹو کے سیکرٹری جنرل اور یورپی یونین کے اعلی نمائندوں سے بھی بات کی۔ترکی نے بھی روایتی طور پر افغانستان کےساتھ اچھے تعلقات قائم کر رکھے ہیں اور برطانیہ کے بھی وہاں اثر و رسوخ ہیں۔چین سے رابطے میں امریکا نے اپنے خدشات کا اظہار کیا کہ بیجنگ خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے افغانستان سے امریکا کے انخلا کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔امریکی پالیسی سازوں کے مطابق چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ میں مسائل بیجنگ اور واشنگٹن کے
درمیان تعاون کا موقع فراہم کرتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ان کی طرح چین بھی خطے میں مذہبی شورش نہیں چاہتا کیونکہ اس سے سنکیانگ پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔واشنگٹن کے مطابق بھارت افغانستان میں بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے جہاں وہ مختلف مقامات پر اثر و رسوخ رکھتا ہے تاہم واشنگٹن میں پالیسی سازوں اور اسکالرز نے بارہا کہا ہے کہ ان
میں سے کوئی بھی ملک افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی گہرائی سے مطابقت نہیں رکھتا۔ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن دونوں انتظامیہ نے عوامی سطح پر طالبان کے ساتھ فروری 2020 کے امن معاہدے کو حتمی شکل دینے میں پاکستان کی حمایت کو تسلیم کیا ہے۔مزید یہ واشنگٹن افغانستان میں اثر و رسوخ کے لیے بھارت اور پاکستان کے درمیان
جدوجہد سے آگاہ ہے اور چاہتا ہے کہ دونوں ممالک اپنی دشمنی سے حساس علاقے میں پہلے سے کشیدہ صورتحال کو مزید کشیدہ نہ ہونے دیں اس سلسلے میں اینٹونی بلنکن نے اپنے بھارتی اور پاکستانی ہم منصبوں سے ٹیلی فونک رابطہ کیا۔سیکرٹری اینٹونی بلنکن کی کال کے بعد امریکی محکمہ خارجہ نے دو بیانات جاری کرتے ہوئے کہا کہ سیکرٹری اینٹونی بلنکن
نے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے بات کی۔سیکریٹری اینٹونی بلنکن اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغانستان اور وہاں پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن واستحکام کی کوششوں کو فروغ دینے کے لیے امریکا سمیت دیگربین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ قریبی
رابطے میں رہے گا۔وزیر خارجہ نے زور دیا کہ ایک جامع سیاسی حل ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے، افغانستان کے لیے امریکا کے معاشی تعاون کا تسلسل بھی انتہائی اہم ہے۔شاہ محمود قریشی نے اینٹونی بلنکن کو پاکستان سے سفارتی مشنوں اور بین الاقوامی اداروں کے عملے اور دیگر افراد کو افغانستان سے نکالنے میں سہولت کاری کے حوالے سے
پاکستان کی کوششوں سے آگاہ کیا۔امریکی سیکریٹری خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق سیکریٹری اینٹونی بلنکن نے بھارتی وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر سے افغانستان اور وہاں کی بدلتی ہوئی صورتحال کے بارے میں بھی بات کی اس کے باوجود بھارت نے پاکستان کے ساتھ اپنی کشیدگی کو کم کرنے کی کوئی علامت ظاہت کی اور پیر کو اس
نے پاکستان کو ایک بار پھر افغان صورتحال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کی بحث میں حصہ لینے سے روک دیا۔بھارت سلامتی کونسل کے موجودہ بھارتی صدر نے اشرف غنی کی حکومت کے سفیر کو ہنگامی اجلاس سے خطاب کی اجازت دی۔پاکستان اور افغانستان دونوں نے اپنی درخواستیں یو این ایس سی کے رول 37 کے تحت جمع کرائی تھیں جو کہ ایک غیر رکن کو کونسل سے خطاب کرنے کی اجازت دیتا ہے۔دونوں موجودہ کونسل کے ممبر نہیں ہیں جس کے پانچ مستقل اور دس غیر مستقل ارکان ہیں۔