اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک /این این آئی)طالبان کو آگاہ کر دیا کہ اگر ہماری امریکی فوجیوںکو پر حملہ کیا گیا تو ہمار جواب پھر فیصلہ کن ہو گا ۔ تفصیلات کےمطابق امریکہ کے سیکریٹری خارجہ انتھونی بلنکن نے کہا ہے کہ کابل میں موجود سفارتی عملے کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔دوسری جانب نیٹو عہدیداروں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین اسٹاف کے کئی ارکان کابل میں
نامعلوم محفوظ مقام پر منتقل ہو گئے ہیں جبکہ امریکی عہدیدار کا بتانا ہے کہ امریکی سفارت خانے کا 50 افراد سے بھی کم عملہ کابل میں موجود ہے۔ذرائع کا بتانا ہے کہ آج صبح کچھ ہیلی کاپٹروں کو امریکی سفارتخانے کی جانب آتے دیکھا گیا تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا نے اپنا سفارتی عملہ وہاں سے نکال لیا ہے۔ذرائع کا یہ بھی بتانا ہے کہ امریکی سفارت خانے کی حساس دستاویزات کو جلا دیا گیا ہے اور سفارت خانے سے دھواں نکلتے بھی دیکھا گیا تھا۔واضح رہے کہ اشرف غنی نے صدارت سے استعفیٰ دینے کے بعد ملک سے فرار ہو گئے ۔ تفصیلات کے مطابق اشرف غنی نے استعفیٰ دینے بعد ملک چھوڑ کر چلے ہیں ہیں ۔ برطانوی ذرائع کے مطابق افغان صدر اشرف غنی نے افغانستان سے فرار ہونے کے بعد تاجکستان میں پنا ہ لی ہے ۔ واضح رہے کہ غیرملکی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ افغان حکومت میں نئی عبوری حکومت کے قیام کا معاہدہ طے پاگیا ہے ، افغان صدر اشرف غنی نے استعفیٰ دیدیا ہے، اشرف غنی نے استعفیٰ طالبان سے مذاکرات کے بعد دیا۔افغان وزیرداخلہ کے مطابق معاہدہ میں طے پایا ہے کہ کابل پر حملہ نہیں ہوگ ا۔ذرائع کے مطابق سابق افغان وزیرداخلہ علی احمدجلالی عبوری حکومت کے سربراہ ہوں گے جبکہ بعض غیرملکی ذرائع یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ افغانستان میں عبوری حکومت ملا عبدالغنی کی سربراہی میں قائم ہوگی۔مغربی میڈیا نے اشرف غنی کے استعفے کی خبروں کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اشرف غنی کسی بھی وقت استعفیٰ دے سکتے ہیں۔مغربی میڈیا کی جانب سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ طالبان کے نائب امیر ملا عبدالغنی برادر کابل پہنچ گئے۔اس سے قبل امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نے کہاہے کہ ان کی افغان صدر اشرف غنی سے ٹیلی فون پر بات چیت ہوئی ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ سے جاری بیان میں کہاگیاکہ امریکی وزیرخارجہ کی افغان صدر اشرف غنی سے افغانستان کی موجودہ سیکیورٹی کی صورتِ حال پر بھی بات چیت ہوئی۔امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نے یہ بھی بتایا کہ کشیدگی میں کمی کی امریکی سفارتی اور سیاسی کوششوں پر بھی اشرف غنی سے بات ہوئی ہے۔